Please wait..

بلادِ اسلامیہ

 
سرزمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے
ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے

معانی:بلادِ اسلامیہ: اسلامی ممالک، شہر ۔ مسجود: جسے سجدہ کیا جائے، مراد لائق احترام ۔ دلِ غم دیدہ: دکھ برا دل ۔ اسلاف: جمع سلف، پرانے بزرگ ۔ خوابیدہ: سویا ہوا، مراد بکھرا ہوا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے دنیا بھر کے ان بڑے شہروں کی عظمت رفتہ کی نشاندہی کی ہے جو ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی عظمت و شوکت کی آماجگاہ تھے ۔ اس شعر میں اقبال ہندوستان کے اہم ترین شہر دہلی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس شہر عظیم کے لیے سجدہ ریز ہوں کہ اس کے زوال کی کہانی دل کو شدید غم سے دوچار کیے ہوئے ہے ۔ یہ وہی شہر ہے جس کے ذرے ذرے میں عظمت اسلاف کی داستانیں پوشیدہ ہیں ۔

 
پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہِ عظمتِ اسلام ہے یہ سرزمیں

معانی: اجڑا گلستاں : تباہ شدہ باغ یعنی دلی جو 1857 میں تباہ ہوا ۔ خانقاہ: درویشوں کے رہنے کی جگہ ۔ عظمت اسلام: اسلام کی بڑائی ۔
مطلب: ہر چند کہ عظمت اسلام کی مظہر یہ سرزمین آج اجڑ چکی ہے تاہم اس سے جو یادیں وابستہ ہیں وہ بھلائے نہیں بھولتیں ۔

 
سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار
نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار

معانی: خیر الامم: امتوں میں سب سے اچھی امت ۔ تاجدار: بادشاہ، مراد نظام الدین اولیا ۔ نظم عالم: دنیا کا انتظام ۔
مطلب: دہلی کی خاک میں عالم اسلام کے وہ اعلیٰ مرتبت فرمانروا دفن ہیں جن کی حکومت پوری دنیا کے نظام کو مربوط رکھنے کا سبب بنی ۔

 
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چکا حاصل، مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

معانی: گرمیِ محفل: محفل کی رونق ۔ حاصل: کھیت یا باغ کی فصل، پیداوار ۔
مطلب: ان فرمانرواؤں کے عہد میں جو اس شہر کی عظمت و شوکت تھی اس کے تصور سے ہی دل تڑپ کر رہ جاتا ہے ۔ ہر چند کی یہ شان و شوکت اب قصہ ماضی بن چکی پھر بھی اس کی یاد دلوں میں باقی ہے ۔

 
ہے زیارت گاہِ مسلم گو جہان آباد بھی
اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی

معانی: زیارت گاہ: مقدس مقام جہاں لوگ بطور عقیدت جاتے ہیں ۔ بغداد: عراق کا مشہور اور بہت پرانا شہر ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال بغداد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے شک دہلی اپنی جملہ خصوصیات کے سبب اہل اسلام کے لیے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتی تھی اس کے باوجود ہم اسلامی تاریخ کے اہم شہر بغداد کی عظمت و کرامت کوبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔

 
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالہَ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز

معانی: سامانِ ناز: فخر کا باعث ۔ لالہَ صحرا: مراد تہذیب حجاز یعنی اسلامی تمدن ۔
مطلب: بغداد وہ گلشن تھا جس پر کبھی سارا عالم اسلام فخر کرتا تھا ۔ عربوں کی تہذیب نے اسی شہر نامدار میں عروج و ارتقا کے مراحل طے کیے تھے ۔

 
خاک اس بستی کی ہو کیوں کر نہ ہمدوشِ اِرم
جس نے دیکھے جانشینانِ پیمبر کے قدم

معانی: ہمدوشِ ارم: جنت کے برابری کرنے والی ۔ جانشینان: جمع جانشین، اپنے بزرگوں کی جگہ بیٹھنے والے ۔
مطلب: اس شہر کی خاک کو یوں بہشت کی ہم منصب ہونے کی سعادت حاصل ہے کہ اس پر پیغمبر آخر الزماں کے پیروکاروں اور جانشینوں کے قدم پڑتے رہے ۔

 
جس کے غنچے تھے چمن ساماں وہ گلشن ہے یہی
کانپتا تھا جن سے روما، ان کا مدفن ہے یہی

معانی: گلشن: باغ یعنی بغداد ۔ مدفن: دفن ہونے کی جگہ ۔
مطلب: یہی وہ شہر ہے جو اسلامی تدبر و حکمت کا نشان تھا اور یہیں پر وہ عظیم المرتبت تاجدار دفن ہیں جن کی ہیبت و سطوت سے سلطنت روم کے اولوالعزم فرمانروا بھی خوفزدہ رہا کرتے تھے ۔

 
ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدہَ مسلم کا نور
ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثلِ شمعِ طور

معانی: قرطبہ: ہسپانیہ یعنی سپین کا مشہور شہر جہاں دنیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہے ۔ دیدہَ مسلم: مسلمانوں کی آنکھ ۔ ظلمتِ مغرب: یورپ کی تاریکی ۔
مطلب: دہلی اور بغداد کے علاوہ اندلس کا مشہور شہر قرطبہ بھی کسی زمانے میں عالم اسلام کی آنکھ کا تارا رہا ہے ۔ خلافت عثمانیہ کے عہد میں یہ مشہور شہر اپنے علم و فضل اور شان وشوکت کے سبب بڑی اہمیت کا حامل تھا ۔

 
بجھ کے بزمِ ملتِ بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی

معانی: بزمِ ملتِ بیضا: مراد امت مسلمہ کی محفل ۔ پریشاں : منتشر، بکھری ہوئی ۔ فروزاں : روشن ۔
مطلب: اس دور میں پوری تہذیب عملاً دم توڑ رہی تھی جب کہ قرطبہ ان کے لیے ایک ستارہ نور کی حیثیت رکھتا تھا ۔ لیکن جب خلافت عثمانیہ کو زوال ہوا تو اس شہر کی تہذیب بھی دم توڑ گئی جس کے باعث پوری ملت اسلامیہ کو شدید دھچکا پہنچا لیکن اس سے فائدہ یورپی تہذیب کو ہی پہنچا

 
قبر اس تہذیب کی یہ سرزمینِ پاک ہے
جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نمناک ہے

معانی: اس تہذیب: اسلامی تہذیب ۔ سرزمین پاک: مقدس، لائق احترام شہر ۔
مطلب: قرطبہ کی سرزمین دیکھا جائے تو ملت اسلامیہ کی عظمت و شوکت کا قبر ستان ہے جس کے باعث یورپی تہذیب کو زندگی ملی ۔ مراد یہ کہ اہل یورپ نے قرطبہ میں انتہائی ترقی یافتہ اسلامی تہذیب سے پوری طرح استفادہ کیا ۔

 
خطہَ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدیِ امت کے سطوت کا نشانِ پائدار

معانی: قسطنطنیہ: جو اب ترکی کا شہر اورر استنبول کے نام سے مشہور ہے ۔ قیصر: روم کے بادشاہوں کا لقب ۔ دیار: شہر ۔ مہدیِ امت: مراد سلطان محمد فاتح ۔ سطوت: شان و شوکت، دبدبہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال دہلی، بغداد اور قرطبہ کے بعد ایک اور عظیم الشان شہر قسطنطنیہ کا ذکر کرتے ہیں جو سینکڑوں برس کی محاز آرائی کے بعد قیصر روم سے سلطان محمد فاتح کے عہد میں تسخیر کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت نے اسی کے فتح کرنے والے سالار کو جنت کی بشارت دی تھی ۔ صحابی رسول مقبول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار بھی یہیں پر واقع ہے ۔ قسطنطنیہ جو قیصر خاندان کے زیر نگیں رہا وہ آخر کار سلطان محمد فاتح کی عظمت و شان کا آئینہ دار بن گیا

 
صورتِ خاکِ حرم یہ سرزمیں بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہِ لولاک ہے

معانی: صورتِ خاکِ حرم: کعبہ کی سرزمین کی طرح ۔ آستان: دہلیز، درگاہ ۔ مسند آرا: تخت کو زینت دینے والا ۔ شہ لولاک: مراد حضور اکرم ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یہ شہر بھی ہمارے لیے حجاز مقدس کی طرح محترم ہے اس لیے کہ یہ ایک مدت تک ان فرمانرواؤں کا مسکن رہا جنھیں حضورﷺ کی جانشینی کا شرف حاصل رہا ہے ۔

 
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تُربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا

معانی: نکہتِ گل: پھول کی خوشبو ۔ تربت: قبر، مزار ۔ ایوب انصاری: حضرت ایوب انصاری ، نام خالد، کنیت ابو ایوب ۔ انھوں نے عقبہ کی گھاٹی میں حضور اکرم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ مدینہ میں حضور کی میزبانی کا شرف انھی کو نصیب ہوا تھا ۔
مطلب: اس خطے کی فضاء میں پھولوں کی خوشبو اور پاکیزگی رچی ہوئی ہے ۔ یہاں صحابی رسول اللہ حضرت ایوب انصاری کا جو مزار واقع ہے یوں لگتا ہے اس سے آج بھی آواز آ رہی ہے ۔

 
اے مسلماں ملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سیکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر

معانی: کشت و خوں : قتل و غارت ۔ حاصل: پیداوار، ثمرہ ۔
مطلب: کہ اے مسلمانوں سنو! یہ عظیم المرتبت شہر ملت اسلامیہ کے قلب کی مانند ہے اس لیے کہ ہمارے عظیم المرتبت اسلاف نے اسے سیکڑوں برس کی نبرد آزمائی اور بے شمار جانوں کی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا ۔

 
وہ ز میں ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا

معانی: خوابگاہ: آرام کی جگہ، مزار، روضہ ۔ دید: دیکھنا ۔ حجِ اکبر: بڑا حج ۔ سوا: بڑھ کر ۔
مطلب: اوپر کے اشعار کے بعد بلاد اسلامیہ کا باب مدینہ منورہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا کہ جہاں پیغمبر آخر الزماں کی آخری آرام گاہ آج بھی مرجع خلائق بنی ہوئی ہے ۔ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ہر سال دنیا بھر سے آنے والے کروڑوں مسلمانوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے ۔ اس شہر بے مثال کی عظمت کا اندازہ اسی امر سے ہوتا ہے کہ آنحضرت کا مدفن مبارک اسی مقام پر موجود ہے ۔ مدینہ منورہ کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ تجھے یہ شرف حاصل ہے کہ تو ہمارے نبی کی آخری آرام گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہمارے لیے تیرا نظارہ تو حرم کعبہ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

 
خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری ز میں

معانی: خاتم ہستی: کائنات کی انگوٹھی ۔ تاباں : روشن، چمکدار ۔ مانند نگیں : نگینے کی طرح ۔ اپنی: یعنی مسلمانوں کی ۔ ولادت گاہ: پیدا ہونے کی جگہ ۔
مطلب: اگر کائنات کو ایک انگوٹھی سے تعبیر کر لیا جائے تو اس انگوٹھی میں تیرا وجود ایک گوہر تابدار کی مانند ہے ۔ اسلام کی عظمت و تابندگی نے دیکھا جائے تو اسی مقام سے جنم لیا ہے ۔

 
تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی

معانی: شہنشاہِ معظم: بہت بڑا بادشاہ، مراد حضور اکرمﷺ ۔ دامن: سرپرستی ۔ اماں : پناہ ۔ اقوامِ عالم: دنیا کی بڑی بڑی قو میں ۔
مطلب: اے مقدس شہر! اس حقیقت سے کیسے انکار ہو سکتا ہے کہ اس شہنشاہ معظم کو تیرے دامن میں ہی راحت ملی جس کے دامن میں بلاشک و شبہ تمام اقوام عالم نے سکون محسوس کیا ۔

 
نام لیوا جس کے، شاہنشاہ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے، وارث مسندِ جم کے ہوئے

معانی: شاہنشاہ عالم کے: دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ، حکمران ۔ نام لیوا: مراد حضور اکرم کا نام مبارک لینے میں فخر کرنے والے ۔ وارث: مالک ۔ مسند جم: ایران کے قدیم بادشاہ جمشید کا تخت ۔
مطلب: آنحضرت کے شخصیت اسقدر عظیم تھی کی دنیا بھر کے شہنشاہ ان کے پیروکار بن گئے اور پھر یہی لوگ قیصر و جمشید جیسے عظیم فرمانرواؤں کی جگہ لے سکے ۔

 
ہے اگر قومیتِ اسلام پابندِ مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس ہے نہ شام

مطلب: ہر چند کہ اسلامی قومیت کا تصور کسی مخصوص خطے تک محدود نہیں پھر بھی اگر اسی حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی بنیاد ہندہے نہ ایران اور شام کے بجائے ۔

 
آہ! یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو
نقطہَ جاذبِ تاثر کی شعاعوں کا ہے تو

معانی: یثرب: مدینہ منورہ کا پرانا نام ۔ مسلم کا: مراد تمام مسلمانوں کا ۔ ماوا: پناہ کی جگہ ۔ نقطہَ جاذب: اپنی طرف کھینچنے والا مرکز ۔ شعاعوں : جمع شعاع، کرنیں ۔
مطلب: مدینہ ہی وہ مقام ہے جو مسلمانوں کا مرکز نگاہ اور پناہ گاہ ہے ۔

 
جب تلک باقی ہے تو، دنیا میں باقی ہم بھی ہیں
صبح ہے تو اس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں

معانی: گوہرِ شبنم: مراد اوس کے قطرے ۔
مطلب: چنانچہ جب تک صبحدم شبنم کی طرح تیرا وجود باقی ہے ہم مسلمان بھی اسی طرح زندہ ہیں ۔