عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ سَالِمٍ الْحَنَّاطِ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الامِينُ عَلى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ قَالَ هِيَ الْوَلايَةُ لامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا مجھے بتائیے اس آیت کے متعلق نازل کیا روح الامین نے تیرے قلب پر تا کہ تو صاف عربی زبان میں لوگوں کو ڈرائے۔ فرمایا یہ امیر المومنین کی ولایت کے بارے میں ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ مِسْكِينٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا عَرَضْنَا الامانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَالارْضِ وَالْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَأَشْفَقْنَ مِنْها وَحَمَلَهَا الانْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً قَالَ هِيَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت ہم نے امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ انھوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ درآنحالیکہ وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ فرمایا یہ امانت ولایت امیر المومنین ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي زَاهِرٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُوسَى الْخَشَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ قَالَ بِمَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ ﷺ مِنَ الْوَلايَةِ وَلَمْ يَخْلِطُوهَا بِوَلايَةِ فُلانٍ وَفُلانٍ فَهُوَ الْمُلَبَّسُ بِالظُّلْمِ۔
راوی نے کہا یہ جو لوگ ہم پر ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا کیا مطلب ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا۔ فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اس ولایت پر جو رسول لے کر آئے اور اس سے اپنے ایمان کو فلاں فلاں کی ولایت سے مخلوط نہ کیا کیونکہ وہ ظلم سے مخلوط ہوئی ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ نُعَيْمٍ الصَّحَّافِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَمِنْكُمْ كافِرٌ وَمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ فَقَالَ عَرَفَ الله إِيمَانَهُمْ بِوَلايَتِنَا وَكُفْرَهُمْ بِهَا يَوْمَ أَخَذَ عَلَيْهِمُ الْمِيثَاقَ فِي صُلْبِ آدَمَ علیہ السلام وَهُمْ ذَرٌّ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا، تم میں سے کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر۔ فرمایا خدا معرفت کرائے ان کے ایمان کی ہماری ولایت سے اور اس سے انکار کرنے والوں کی۔ جس روز ان سے عہد لیا تھا جبکہ وہ صلب آدم میں بصورت ذرہ تھے۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ الَّذِي أَخَذَ عَلَيْهِمْ مِنْ وَلايَتِنَا۔
فرمایا امام رضا علیہ السلام نے آیت یوفون بالنذر کے متعلق مراد یہ ہے کہ ان سے ہماری ولایت کا عہد لیا گیا۔
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالانْجِيلَ وَما أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ قَالَ الْوَلايَةُ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اگر وہ توریت و انجیل پر قائم رہتے اور اس پر جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کیا گیا ہے (تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا) فرمایا اس سے مراد ولایت ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُثَنًّى عَنْ زُرَارَةَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَجْلانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى قَالَ هُمُ الائِمَّةُ (عَلَيْهم السَّلام )۔
آیت قل لا اسئلکم کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اجر ہم آئمہ کی محبت ہے جو ذوی القربیٰ رسول ہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ يُطِعِ الله وَرَسُولَهُ فِي وَلايَةِ عَلِيٍّ وَوَلايَةِ الائِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ فَقَدْ فازَ فَوْزاً عَظِيماً هَكَذَا نَزَلَتْ۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت من یطع اللہ و رسولہ کے متعلق فرمایا اس سے مراد ولایت علی علیہ السلام اور ان کے بعد دیگر آئمہ کی ولایت پس اس کو پوری پوری کامیابی ہوئی۔ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ رَفَعَهُ إِلَيْهِمْ فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَما كانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ الله فِي عَلِيٍّ وَالائِمَّةِ كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسى فَبَرَّأَهُ الله مِمَّا قالُوا۔
راوی نے آئمہ کی اسناد سے بیان کیا ہے کہ آیت تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت دو (علی اور آئمہ کے بارے میں) جیسے اذیت دی تھی موسیٰ کو امت موسیٰ نے پس بری ہے اللہ اس چیز سے جو انھوں نے بیان کیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ السَّيَّارِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الله قَالَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى قَالَ مَنْ قَالَ بِالائِمَّةِ وَاتَّبَعَ أَمْرَهُمْ وَلَمْ يَجُزْ طَاعَتَهُمْ۔
راوی کہتا ہے کہ امام سے سوال کیا کسی نے اس آیت کے متعلق جس نے اتباع کیا میری ہدایت کا وہ گمراہ نہ ہوا اور نہ شقی ہوا۔ امام نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جس نے آئمہ کے حکم پر عمل کیا اور ان کی اطاعت کو نہ چھوڑا وہ گمراہ نہ ہوا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله رَفَعَهُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ. وَأَنْتَ حِلٌّ بِهذَا الْبَلَدِ. وَوالِدٍ وَما وَلَدَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا وَلَدَ مِنَ الائِمَّةِ (عَلَيْهم السَّلام )۔
راوی نے آیت قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی درآنحالیکہ تم اس میں چلتے پھرتے ہو اور قسم ہے ایک باپ کی اور بیٹے کی۔ امام سے دریافت کیا۔ فرمایا والد سے مراد ہیں امیر المومنین اور ما ولد سے مراد ہیں آئمہ علیہم السلام
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله تَعَالَى وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لله خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَالائِمَّةُ (عَلَيْهم السَّلام)
آیت جان لو جو مالِ غنیمت تم کو ملے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور ذوی القربیٰ کا ہے کے متعلق امام سے سوال کیا گیا۔ فرمایا ذوی القربیٰ سے مراد ہیں امیر المومنین اور دیگر آئمہ۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ قَالَ هُمُ الائِمَّةُ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت ہم نے ایک امت ایسی پیدا کی ہے جو حق کی ہدایت کرتے ہیں اور عدل سے کام لیتے ہیں۔ فرمایا وہ آئمہ ہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتابَ مِنْهُ آياتٌ مُحْكَماتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتابِ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالائِمَّةُ وَأُخَرُ مُتَشابِهاتٌ قَالَ فُلانٌ وَفُلانٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ أَصْحَابُهُمْ وَأَهْلُ وَلايَتِهِمْ فَيَتَّبِعُونَ ما تَشابَهَ مِنْهُ ابْتِغاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغاءَ تَأْوِيلِهِ وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا الله وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالائِمَّةُ (عَلَيْهم السَّلام)۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت وہ وہ ہے جس نے تجھ پر کتاب کو نازل کیا۔ اس میں کچھ آیات محکمات ہیں وہی اصل کتاب ہیں۔ فرمایا اس سے مراد ہیں امیر المومنین اور آئمہ ہیں اور باقی متشابہات ہیں۔ فرمایا ان سے مراد فلاں فلاں اور جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے اس سے مراد ہیں ان کے اصحاب و دوست جو متشابہات کا اتباع کرتے ہیں فتنہ کی خواہش کرتے ہیں اور اس کی تاویل کرنے کے لیے۔ اور نہیں جانتے اس کی تاویل مگر اللہ اور راسخون فی العلم اور اس سے مراد امیر المومنین اور دیگر آئمہ ہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُثَنًّى عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَجْلانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ الله الَّذِينَ جاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ الله وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً يَعْنِي بِالْمُؤْمِنِينَ الائِمَّةَ (عليهم السلم) لَمْ يَتَّخِذُوا الْوَلائِجَ مِنْ دُونِهِمْ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے آیت کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے۔ اللہ نے ابھی ان لوگوں کو ممتاز نہیں کیا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا اور اس کے رسول اور مومنین کے سوا اور کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا (یعنی امیر المومنین علیہ السلام اور ان لوگوں نے آئمہ کے سوا کسی کو رازدار نہیں بنایا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ صَفْوَانَ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَها قَالَ قُلْتُ مَا السَّلْمُ قَالَ الدُّخُولُ فِي أَمْرِنَا۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت اگر وہ کفار و مشرکین صلح کی طرف مائل ہوں تو تم ان سے صلح کر لو۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا سلم کیا ہے۔ فرمایا ہمارے امر میں داخل ہونا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ قَالَ يَا زُرَارَةُ أَ وَلَمْ تَرْكَبْ هَذِهِ الامَّةُ بَعْدَ نَبِيِّهَا طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ فِي أَمْرِ فُلانٍ وَفُلانٍ وَفُلانٍ۔
آیت تم ضرور ایک مصیبت سے دوسری مصیبت میں پھنسو گے کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کیا امت اپنے نبی کے بعد فلاں فلاں فلاں کے پھندے میں پھنس کر ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں نہیں پھنسی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ وَصَّلْنا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ قَالَ إِمَامٌ إِلَى إِمَامٍ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے آیت ہم نے اپنے قول کا اتصال کر دیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ فرمایا وہ ایک امام سے دوسرے امام تک کا سلسلہ ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَلامٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى قُولُوا آمَنَّا بِالله وَما أُنْزِلَ إِلَيْنا قَالَ إِنَّمَا عَنَى بِذَلِكَ عَلِيّاً علیہ السلام وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَجَرَتْ بَعْدَهُمْ فِي الائِمَّةِ علیہ السلام ثُمَّ يَرْجِعُ الْقَوْلُ مِنَ الله فِي النَّاسِ فَقَالَ فَإِنْ آمَنُوا يَعْنِي النَّاسَ بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ يَعْنِي عَلِيّاً وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَالائِمَّةَ (عليهم السلم) فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ۔
آیت کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو ہم پر نازل کیا گیا ہے۔ فرمایا اس سے مراد ہیں علی و فاطمہ حسن و حسین اور جاری ہوا یہ امر بعد میں آئمہ علیہم السلام کے لیے پھر خدا کی طرف سے رجوع ہوتا ہے یہ قول لوگوں کی طرف۔ فرمایا اگر وہ لوگ ایمان لائیں اسی طرح جیسے تم ایمان لائے یعنی علی و فاطمہ و حسن و حسین اور دیگر آئمہ علیہم السلام تو وہ ہدایت یافتہ ہوں گے اور اگر انھوں نے روگردانی کی تو یہ بدبختی اور تفرقہ پردازی ہو گی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُثَنًّى عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَجْلانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ قَالَ: هُمُ الائِمَّةُ (عَلَيْهم السَّلام) وَمَنِ اتَّبَعَهُمْ۔
آیت ان اولی الناس کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا والذین آمنو سے مراد آئمہ علیہم السلام ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے ان کا اتباع کیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ مَالِكٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هذَا الْقُرْآنُ لانْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ قَالَ مَنْ بَلَغَ أَنْ يَكُونَ إِمَاماً مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ فَهُوَ يُنْذِرُ بِالْقُرْآنِ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت اوحی الی کے متعلق فرمایا کہ من بلغ سے مراد یہ ہے کہ آل محمد سے ہر زمانہ میں ایک امام ہو گا جو لوگوں کو عذاب خدا سے اسی طرح ڈرائے گا جیسے رسول خدا نے ڈرایا تھا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً قَالَ عَهِدْنَا إِلَيْهِ فِي مُحَمَّدٍ وَالائِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ فَتَرَكَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ عَزْمٌ أَنَّهُمْ هَكَذَا وَإِنَّمَا سُمِّيَ أُولُو الْعَزْمِ أُوْلِي الْعَزْمِ لانَّهُ عَهِدَ إِلَيْهِمْ فِي مُحَمَّدٍ وَالاوْصِيَاءِ مِنْ بَعْدِهِ وَالْمَهْدِيِّ وَسِيرَتِهِ وَأَجْمَعَ عَزْمُهُمْ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ كَذَلِكَ وَالاقْرَارِ بِهِ۔
آیت اور ہم نے عہد لیا آدم سے پہلے ہی پس وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہ پایا کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا وہ عہد تھا محمد اور ان کے بعد والے آئمہ کے متعلق آدم نے ترک کیا اور ان میں عزم نہ پایا گیا (یعنی محمد و آل محمد کے توسل کو ترک کیا بعد میں ان کے توسل سے دعا مانگی) اور اولو العزم اس لیے انبیاء کو کہا گیا کہ انھوں نے حضرت رسول خدا اور ان کے اوصیاء اور امام مہدی اور ان کی سیرت کے متعلق جو عہد کیا تھا اس پر قائم رہے اور اس کا اقرار کیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْقُمِّيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ كَلِمَاتٍ فِي مُحَمَّدٍ وَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَالائِمَّةِ علیہ السلام مِنْ ذُرِّيَّتِهِمْ فَنَسِيَ هَكَذَا وَالله نَزَلَتْ عَلَى مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت لقد عہدنا کے متعلق فرمایا کہ وہ کلمات تھے محمد و علی و فاطمہ و حسن اور حسین اور ان آئمہ کے متعلق کو ان کی ذریت سے ہونے والے تھے آدم ان کو بھول گئے واللہ محمد پر یونہی نزول آیت ہوا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَادٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ عَنِ الثُّمَالِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ أَوْحَى الله إِلَى نَبِيِّهِ ﷺ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ قَالَ إِنَّكَ عَلَى وَلايَةِ عَلِيٍّ وَعَلِيٌّ هُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ۔
آیت اے رسول مضبوطی سے قائم رہو اس پر جو تمہیں وحی کی گئی ہے کہ تم صراط مستقیم پر ہو ۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے فرمایا کہ اے رسول تم ولایت علی پر قائم رہو اور علی صراط مستقیم ہیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ مُنَخَّلٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام بِهَذِهِ الايَةِ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ هَكَذَا بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِما أَنْزَلَ الله فِي عَلِيٍّ بَغْياً۔
آیت برا ہے جو انھوں نے خریدا اپنے نفسوں کے لیے بایں طور کہ انکار کیا اس چیز سے جو اللہ نے تم پر نازل کی۔ اس کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ علی کے بارے میں جو نازل کیا گیا تھا سرکشی سے لوگوں نے اس سے انکار کر دیا۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ مُنَخَّلٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام بِهَذِهِ الايَةِ عَلَى مُحَمَّدٍ هَكَذَا وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا فِي عَلِيٍّ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ۔
راوی کہتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت اگر تم شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے (علی کی بارے میں) تو تم اس کی مثل ایک سورہ لاؤ۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ مُنَخَّلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ بِهَذِهِ الايَةِ هَكَذَا يا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ آمِنُوا بِما نَزَّلْنا فِي عَلِيٍّ نُوراً مُبِيناً۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جبرئیل رسول پر یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ اے وہ لوگو جن کو کتاب دی گئی ہے ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے نازل کی ہے (علی کے بارہ میں) بصورت نور مبین۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي طَالِبٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ بَكَّارٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا ما يُوعَظُونَ بِهِ فِي عَلِيٍّ لَكانَ خَيْراً لَهُمْ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اگر وہ کرتے جس کی انھیں نصیحت کی گئی ہے (علی کے بارے میں) تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ مُثَنًّى الْحَنَّاطِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَجْلانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ قَالَ فِي وَلايَتِنَا۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق اے ایمان لانے والو سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ یہ آیت ہماری ولایت کے متعلق ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَوْلُهُ جَلَّ وَعَزَّ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا قَالَ وَلايَتَهُمْ وَالاخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقى قَالَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِنَّ هذا لَفِي الصُّحُفِ الاولى. صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسى۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت انھوں نے حیات دنیا کو اختیار کیا (ہمارے دشمنوں سے محبت کر کے) اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے اس سے مراد ولایت امیر المومنین ہے یہی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں تھا۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ مُنَخَّلٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ أَ فَكُلَّما جاءَكُمْ مُحَمَّدٌ بِما لا تَهْوى أَنْفُسُكُمُ بِمُوَالاةِ عَلِيٍّ فَ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اس کے متعلق جب لائے تمہارے پاس (محمد) وہ چیز جس کی خواہش تمہارے نفس نہ کرتے تھے (محبت علی) تو تم نے تکبر کیا اور ایک فریق کو (آل محمد) تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ هِلالٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي السَّفَاتِجِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله جَلَّ وَعَزَّ الْحَمْدُ لله الَّذِي هَدانا لِهذا وَما كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لا أَنْ هَدانَا الله فَقَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دُعِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَبِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَبِالائِمَّةِ مِنْ وُلْدِهِ (عَلَيْهم السَّلام) فَيُنْصَبُونَ لِلنَّاسِ فَإِذَا رَأَتْهُمْ شِيعَتُهُمْ قَالُوا الْحَمْدُ لله الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لا أَنْ هَدَانَا الله يَعْنِي هَدَانَا الله فِي وَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَالائِمَّةِ مِنْ وُلْدِهِ (عَلَيْهم السَّلام )۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے آیت حمد ہے اس خدا کے لیے جس نے ہمیں ہدایت کی اگر خدا ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاتے کے متعلق فرمایا جب قیامت کا دن ہو گا تو بلایا جائے گا نبی و امیر المومنین اور ان آئمہ کو جو ان کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ پس ان کے شیعہ کہیں گے حمد ہے اس خدا کے لیے جس نے دین حق کی ہدایت کی اگر خدا ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ یعنے خدا نے ہم کو ولایت امیر المومنین اور دیگر آئمہ کی طرف ہدایت دی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى عَمَّ يَتَساءَلُونَ عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ قَالَ النَّبَأُ الْعَظِيمُ الْوَلايَةُ وَسَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِهِ هُنالِكَ الْوَلايَةُ لله الْحَقِّ قَالَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ۔
آیت لوگ تم سے بڑی خبر کے متعلق پوچھتے ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا نباء عظیم سے مراد ولایت علی ہے۔ میں نے سوال کیا ولایت خدا مراد نہیں ہے۔ فرمایا ولایت علی مراد ہے۔
توضیح: اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد امیر المومنین کو ولی ماننا ضروری ہے کیونکہ احکام خدا و رسول کی معرفت اور ان پر عمل صحیح بدوں ولایت علی کو تسلیم کیے ممکن نہیں ہو گا۔ ولایت امیر المومنین کو تسلیم کرنا خدا کی ولایت کو تسلیم کرنا ہے کیونکہ جو شخص اپنے شہر کے حاکم کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا وہ درحقیقت بادشاہ وقت کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفاً قَالَ هِيَ الْوَلايَةُ۔
آیت اے رسول دین حنیف پر ثابت قدم رہو کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اس سے مراد ولایت ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَمَذَانِيِّ يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَنَضَعُ الْمَوازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيامَةِ قَالَ الانْبِيَاءُ وَالاوْصِيَاءُ (عَلَيْهم السَّلام)۔
ابو عبداللہ علیہ السلام نے آیت ہم روز قیامت عدل کی ترازوئیں رکھیں گے کے متعلق فرمایا یہ انبیاء اور اوصیاء انبیاء ہیں۔
توضیح: روز قیامت جو میزان نصب کی جائے گی وہ وہ دنیا کی ترازو جیسی نہ ہو گی ہر شے کے تولنے کی ایک جداگانہ میزان ہوتی ہے لکڑی کے تولنے کی ترازو اور ہے غلہ تولنے کی اور ہے سونا چاندی تولنے کی اور بال جیسی چیزوں کو تولنے کی میزان الگ ہے اگر بخار تولنا ہو تو اس کی میزان تھرمامیٹر ہے اگر کسی شعر کا وزن معلوم کرنا ہو تو اس کی میزان الفاظ ہیں اور اگری کسی کی بہادری یا سخاوت تولنی ہو تو رستم و حاتم کی بہادری و سخاوت کو میزان بنایا جائے گا۔ پس اسی طرح کسی امت کے اعمال کی جانچ اس امت کے نبی کے اعمال کو سامنے رکھ کر ہو گی آنحضرت کے امت کے اعمال کی جانچ حضرت علی اور دیگر آئمہ کے اعمال سے ہو گی کیونکہ ان کا ہر عمل عمل رسول ہے
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله تَعَالَى ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هذا أَوْ بَدِّلْهُ قَالَ قَالُوا أَوْ بَدِّلْ عَلِيّاً (عَلَيْهم السَّلام)
راوی کہتا ہے میں حضرت عبداللہ سے اس آیت کے متعلق پوچھا یا تو اس قرآن کے علاوہ دوسرا قرآن لاؤ یا اس کو بدل دو۔ فرمایا امام نے کہ لوگوں نے اس کے جواب میں کہا کہ اے رسول علی کو بدل دو (ہمیں تو عداوت انہی سے ہے)۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ الْحَسَنِ الْقُمِّيِّ عَنْ إِدْرِيسَ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ تَفْسِيرِ هَذِهِ الايَةِ ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ. قالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ قَالَ عَنَى بِهَا لَمْ نَكُ مِنْ أَتْبَاعِ الائِمَّةِ الَّذِينَ قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِمْ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ. أُولئِكَ الْمُقَرَّبُونَ أَ مَا تَرَى النَّاسَ يُسَمُّونَ الَّذِي يَلِي السَّابِقَ فِي الْحَلْبَةِ مُصَلِّي فَذَلِكَ الَّذِي عَنَى حَيْثُ قَالَ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ لَمْ نَكُ مِنْ أَتْبَاعِ السَّابِقِينَ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی جنت والے دوزخیوں سے پوچھیں گے تمہیں دوزخ کی طرف کیا چیز لے آئی۔ وہ کہیں گے ہم نماز گزار نہ تھے۔ آپ نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ ہم ان آئمہ کے پیرو نہ تھے جن کی شان میں یہ آیت ہے۔ نیکی کی طرف سبقت کرنے والے سبقت ہی کرنے والے ہیں اور وہی خدا کے مقرب ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ گھوڑ دوڑ میں سابق اگلے گھوڑے کو کہتے ہیں اور اس سے پیچھے والے کو مصلی کہا جاتا ہے پس مراد یہ ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم سابقین کے پیرو نہ تھے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله الْحَسَنِيِّ عَنْ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْ لَوِ اسْتَقامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لاسْقَيْناهُمْ ماءً غَدَقاً يَقُولُ لاشْرَبْنَا قُلُوبَهُمُ الايمَانَ وَالطَّرِيقَةُ هِيَ وَلايَةُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَالاوْصِيَاءِ (عَلَيْهم السَّلام)۔
آیت اگر وہ صحیح راستہ پر رہتے تو ہم ان کو آب خوشگوار سے سیراب کرتے یعنی ان کے دلوں میں ایمان بھر دیتے کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ طریقہ سے مراد ہے علی علیہ السلام اور ان کے اوصیاء کی ولایت۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا الله ثُمَّ اسْتَقامُوا فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام اسْتَقَامُوا عَلَى الائِمَّةِ وَاحِداً بَعْدَ وَاحِدٍ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلا تَخافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس قول پر ثابت قدم بھی رہے کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا ثابت قدم رہے ایک امام کے بعد دوسرے امام کی ولایت پر۔ ان پر ملائکہ نازل ہو کر کہتے ہیں تم نہ خوف کرو اور نہ حزن تم بشارت دیے جاتے ہو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله تَعَالَى قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ بِواحِدَةٍ فَقَالَ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَلايَةِ علي علیہ السلام هِيَ الْوَاحِدَةُ الَّتِي قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِنَّما أَعِظُكُمْ بِواحِدَةٍ۔
آیت میں تم کو ایک کی نصیحت کرتا ہوں کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اس ایک سے مراد ولایت علی علیہ السلام ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ وَعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدادُوا كُفْراً لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ قَالَ نَزَلَتْ فِي فُلانٍ وَفُلانٍ وَفُلانٍ آمَنُوا بِالنَّبِيِّ ﷺ فِي أَوَّلِ الامْرِ وَكَفَرُوا حَيْثُ عُرِضَتْ عَلَيْهِمُ الْوَلايَةُ حِينَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلاهُ ثُمَّ آمَنُوا بِالْبَيْعَةِ لامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام ثُمَّ كَفَرُوا حَيْثُ مَضَى رَسُولُ الله ﷺ فَلَمْ يَقِرُّوا بِالْبَيْعَةِ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْراً بِأَخْذِهِمْ مَنْ بَايَعَهُ بِالْبَيْعَةِ لَهُمْ فَهَؤُلاءِ لَمْ يَبْقَ فِيهِمْ مِنَ الايمَانِ شَيْءٌ۔
آیت جو لوگ ایمان لائے اور پھر کافر ہو گئے اور پھر ایمان لائے اور پھر کفر کو زیادہ کیا تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہو گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا یہ آیت فلاں فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے پہلے تو وہ نبی پر ایمان لائے پھر جب ولایت کو ان پر پیش کیا گیا تو منکر ہو گئے۔ نبی نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے تو ایمان لائے اور امیر المومنین کی بیعت کر لی۔ لیکن رسول کے مرنے کے بعد پھر گئے اور بیعت کا اقرار نہ کیا۔ پھر بیعت علی کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کرنے پر اپنے کفر کو اور بڑھا لیا لہذا ایمان کا کوئی حصہ ان میں باقی نہ رہا۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى فُلانٌ وَفُلانٌ وَفُلانٌ ارْتَدُّوا عَنِ الايمَانِ فِي تَرْكِ وَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قُلْتُ قَوْلُهُ تَعَالَى ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا ما نَزَّلَ الله سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الامْرِ قَالَ نَزَلَتْ وَالله فِيهِمَا وَفِي أَتْبَاعِهِمَا وَهُوَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِي نَزَلَ بِهِ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا ما نَزَّلَ الله فِي علي علیہ السلام سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الامْرِ قَالَ دَعَوْا بَنِي أُمَيَّةَ إِلَى مِيثَاقِهِمْ أَلا يُصَيِّرُوا الامْرَ فِينَا بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَلا يُعْطُونَا مِنَ الْخُمُسِ شَيْئاً وَقَالُوا إِنْ أَعْطَيْنَاهُمْ إِيَّاهُ لَمْ يَحْتَاجُوا إِلَى شَيْءٍ وَلَمْ يُبَالُوا أَنْ يَكُونَ الامْرُ فِيهِمْ فَقَالُوا سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الامْرِ الَّذِي دَعَوْتُمُونَا إِلَيْهِ وَهُوَ الْخُمُسُ أَلا نُعْطِيَهُمْ مِنْهُ شَيْئاً وَقَوْلُهُ كَرِهُوا ما نَزَّلَ الله وَالَّذِي نَزَّلَ الله مَا افْتَرَضَ عَلَى خَلْقِهِ مِنْ وَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَكَانَ مَعَهُمْ أَبُو عُبَيْدَةَ وَكَانَ كَاتِبَهُمْ فَأَنْزَلَ الله أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ الايَةَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق جو لوگ ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد روگردانی کر گئے فلاں فلاں انھوں نے ترک ولایت امیر المومنین کر کے ایمان سے روگردانی کی۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا سورہ محمد میں اس کے بعد یہ آیت ہے کہ انھوں نے کہا ان لوگوں نے جنھوں نے خدا کے نازل کردہ حکم سے کراہت کی ہم اطاعت کریں گے بعض امر میں امام نے فرمایا یہ نازل ہوئی ہے ان دونوں کے بارے میں اور ان کے تابعین کے بارے میں اور جبرئیل امین رسول پر یہ آیت اس طرح لے کر آئے۔ ان لوگوں نے کراہت ظاہر کی اس امر سے جو خدا نے اپنے رسول پر (علی بارے میں) نازل کیا انھوں نے بلایا بنی امیہ کو اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے تاکہ بعد نبی امر امامت ہماری طرف نہ آئے۔ انھوں نے خمس سے کوئی چیز ہم کو نہ دی اور کہا اگر ہم ان کو خمس دیں گے تو پھر وہ کسی چیز کے محتاج نہ رہیں گے اور امر امامت کو اپنی طرف آنے کی پرواہ نہ کریں گے انھوں نے کہا ہم تمہارے بعض حکم کی اطاعت کریں گے اور وہ یہ کہ ہم اہلبیت کو خمس سے کچھ نہ دیں گے یہی مطلب ہے اس آیت کا انھوں نے امر منزل من اللہ سے کراہت کی اور وہ امر تھا ولایت علی کا فرض کرنا۔ ابو عبیدہ اس وقت ان کے ساتھ تھا اور ان کا کاتب تھا خدا نے یہ آیت نازل کی انھوں نے اپنی حکومت کو مضبوط کیا ہم بھی ان کے لیے داخلہ جہنم کو مضبوط کرنے والے ہیں وہ جو کچھ سرگوشیاں کرتے ہیں ہم ان کو سننے والے ہیں۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ قَالَ نَزَلَتْ فِيهِمْ حَيْثُ دَخَلُوا الْكَعْبَةَ فَتَعَاهَدُوا وَتَعَاقَدُوا عَلَى كُفْرِهِمْ وَجُحُودِهِمْ بِمَا نُزِّلَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَأَلْحَدُوا فِي الْبَيْتِ بِظُلْمِهِمُ الرَّسُولَ وَوَلِيَّهُ فَبُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورہ حج کی اس آیت کے متعلق وہ جس نے ارادہ کیا اس میں الحاد و ظلم کا۔ فرمایا یہ انہی لوگوں کے بارے میں ہے جو کعبہ میں آ بیٹھے اور معاہدہ کیا۔ آپس میں کہ ہم انکار کریں گے۔ ان تمام آیات کا جو نازل ہوئی ہیں علی کے بارے میں۔ پس یقیناً انھوں نے خانہ کعبہ میں اس انکار سے ظلم کیا۔ رسول اور ان کے ولی پر اور ہلاکت ہو ظالم قوم کے لیے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ يَا مَعْشَرَ الْمُكَذِّبِينَ حَيْثُ أَنْبَأْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي فِي وَلايَةِ علي علیہ السلام وَالائِمَّةِ علیہ السلام مِنْ بَعْدِهِ مَنْ هُوَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ كَذَا أُنْزِلَتْ وَفِي قَوْلِهِ تَعَالَى إِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَقَالَ إِنْ تَلْوُوا الامْرَ وَتُعْرِضُوا عَمَّا أُمِرْتُمْ بِهِ فَإِنَّ الله كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيراً وَفِي قَوْلِهِ فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِتَرْكِهِمْ وَلايَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام عَذاباً شَدِيداً فِي الدُّنْيَا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كانُوا يَعْمَلُونَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت عنقریب تم جان لو گے کہ کھلی گمراہی میں کون ہے۔ اے جھوٹوں کے گروہ تم کو میں نے ولایت علی کی اپنے بعد آنے کی خبر دی تھی اب کھلی گمراہی میں کون ہے کے متعلق یہ آیت اس مضمون کے ساتھ نازل ہوئی تھی اور آیت تم نے پیچیدہ کیا اور اعراض کیا کے متعلق فرمایا کہ جس امر کا تمہیں حکم دیا گیا تھا تم نے اسے دھر لپیٹا اور اس سے روگردانی ہے۔ بے شک اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے خبردار ہے اور آیت جن لوگوں نے انکار کیا ہے کے متعلق امام نے فرمایا ولایت امیر المومنین سے ان کے سخت عذاب ہے دنیا میں اور جو کچھ عملی کیا انھوں نے ہم اس کا بدلہ آخرت میں دینگے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ صَبِيحٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام ذلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذا دُعِيَ الله وَحْدَهُ وَأَهْلُ الْوَلايَةِ كَفَرْتُمْ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ نے اس آیت کے متعلق یہ اس لیے ہے کہ جب اکیلے خدا کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے کہ اس میں وحدہ کے بعد اہل الولایہ بھی تھا
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله تَعَالَى سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِعٍ. لِلْكافِرينَ بِوَلايَةِ عَلِيٍّ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا وَالله نَزَلَ بِهَا جَبْرَئِيلُ علیہ السلام عَلَى مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آیت یوں نازل ہوئی تھی جب ایک سائل نے سوال کیا ایسے عذاب کا جو واقع ہونے والا تھا (ولایت علی کے ) منکروں پر اور جس کا کوئی دفع کرنے والا نہ تھا۔ امام نے فرمایا واللہ رسول پر یہ اسی طرح یعنی ولایتہ علی کے ساتھ نازل ہوئی تھی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَيْفٍ عَنْ أَخِيهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى إِنَّكُمْ لَفِي قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ فِي أَمْرِ الْوَلايَةِ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ قَالَ مَنْ أُفِكَ عَنِ الْوَلايَةِ أُفِكَ عَنِ الْجَنَّةِ۔
سورہ الذاریات کی آیت کے متعلق تم لوگ مختلف بے جوڑ باتوں میں پڑے ہو جس سے وہی پھیرا جائے گا جو گمراہ ہوا امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا یہ آیت یوں نازل ہوئی تھی کہ قول مٰختلف کے بعد تھا امر ولایت علی اور یہ بھی فرمایا کہ امر ولایت سے پھرا وہ جنت سے پھرا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ يُونُسَ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ. وَما أَدْراكَ مَا الْعَقَبَةُ. فَكُّ رَقَبَةٍ يَعْنِي بِقَوْلِهِ فَكُّ رَقَبَةٍ وَلايَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَإِنَّ ذَلِكَ فَكُّ رَقَبَةٍ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورہ بلد کی اس آیت کے متعلق پھر وہ گھاٹی پر سے کیوں نہیں گزرا اور تم کیا جانو وہ گھاٹی کیا ہے گردن کا آزار کر دینا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا فک رقبہ سے مراد ہے ولایت امیر المومنین۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى بَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ )۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق بشارت دے دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے کہ ان کے لیے سچائی کا قدم ہے ان کے رب کے نزدیک یعنی ولایت امیر المومنین کو تسلیم کر لینے میں انھوں نے راہ راست پر اپنا قدم رکھا۔ خدا نے فرمایا ہے کہ نوامع الصادقین یعنی امیر المومنین اور آئمہ طاہرین کے ساتھ ہو گئے وہ راہ راست پر گامزن ہو گئے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا بِوَلايَةِ عَلِيٍّ قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے ان دونوں جھگڑا کرنے والوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تو جن لوگوں نے انکار (ولایت علی) کیا ان کے لیے آگ کا لباس ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله تَعَالَى هُنالِكَ الْوَلايَةُ لله الْحَقِّ قَالَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ )۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ اس آیت میں ولایت سے مراد ولایت امیر المومنین ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ صِبْغَةَ الله وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ الله صِبْغَةً قَالَ صَبَغَ الْمُؤْمِنِينَ بِالْوَلايَةِ فِي الْمِيثَاقِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کے بارے میں یہ اللہ کی زینت ہے اور اللہ سے بہتر (ایمان کی زینت) دینے والا کون ہے کہ اللہ نے زینت دی ہے مومنین کو ولایت کے ساتھ روز میثاق عالم۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِناً يَعْنِي الْوَلايَةَ مَنْ دَخَلَ فِي الْوَلايَةِ دَخَلَ فِي بَيْتِ الانْبِيَاءِ (عَلَيْهم السَّلام) وَقَوْلُهُ إِنَّما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً يَعْنِي الائِمَّةَ (عليهم السلم) وَوَلايَتَهُمْ مَنْ دَخَلَ فِيهَا دَخَلَ فِي بَيْتِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے پالنے والے مجھے اور میرے والدین کو بخش اور جو مومن ہو کر میرے گھر میں داخل ہو یعنی جو ولایت میں داخل ہوا وہ بیت انبیاء علیہم السلام میں داخل ہوا اور آیت انما یرید اللہ کے متعلق فرمایا کہ اہل بیت سے مراد ہیں آئمہ علیہم السلام اور جو کوئی ان کی ولایت میں داخل ہو وہ نبی کے گھر میں داخل ہوا۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ قُلْتُ قُلْ بِفَضْلِ الله وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ قَالَ بِوَلايَةِ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهم السَّلام) هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُ هَؤُلاءِ مِنْ دُنْيَاهُمْ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا مطلب ہے اس آیت کا ہدایت پانا اللہ کے فضل و رحمت سے ہے اور چاہے خوش ہونے والے اس سے خوش ہوں اور وہ بہتر ہے اس چیز سے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔ امام نے فرمایا کہ ولایت محمد و آل محمد بہتر ہے اس چیز سے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں اپنی دنیا کے لیے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله الْحَسَنِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام وَنَحْنُ فِي الطَّرِيقِ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ اقْرَأْ فَإِنَّهَا لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ قُرْآناً فَقَرَأْتُ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ. يَوْمَ لا يُغْنِي مَوْلىً عَنْ مَوْلىً شَيْئاً وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ. إِلا مَنْ رَحِمَ الله فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام نَحْنُ وَالله الَّذِي رَحِمَ الله وَنَحْنُ وَالله الَّذِي اسْتَثْنَى الله لَكِنَّا نُغْنِي عَنْهُمْ۔
راوی کہتا ہے کہ میں اور امام جعفر صادق علیہ السلام ہمسفر تھے۔ راہ میں جب شب آئی تو مجھ سے فرمایا قرآن پڑھو کہ یہ شب جمعہ ہے میں نے سورہ دخان شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچا حق و باطل کے فیصلہ کے دن ان سب کے لیے وعدہ کی جگہ ہو گی وہ ایسا دن ہو گا کہ آقا اپنے غلام سے دفع ضرر نہ کر سکے گا سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ رحم کرے کسی کی مدد نہ کی جائے گی۔ حضرت نے فرمایا یہ لوگ جن پر رحم کیا جائے گا واللہ ہم ہیں اللہ نے ہمارا ہی استثنیٰ کیا ہے بے شک ہم اپنے تابعین سے دفع ضرر کر سکیں گے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ يَحْيَى بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ هِيَ أُذُنُكَ يَا عَلِيُّ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب آیت محفوظ رکھتا ہے محفوظ رکھنے والا کان تو حضرت رسولِ خدا نے فرمایا اے علی وہ تمہارا کان ہے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام بِهَذِهِ الايَةِ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ هَكَذَا فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا آلَ مُحَمَّدٍ حَقَّهُمْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا آلَ مُحَمَّدٍ حَقَّهُمْ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ بِما كانُوا يَفْسُقُونَ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ جبرئیل رسول خدا پر یہ آیت اس طرح لے کر نازل ہوئے تھے جن لوگوں نے آل محمد کا حق غضب کیا انھوں نے بدل دیا اس آیت کو ان سے کہی گئی تھی ایک دوسری بات سے پس ہم نے ان لوگوں پر آسمان سے اس لیے عذاب نازل کیا کہ وہ بدکار تھے۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله الْحَسَنِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ بِهَذِهِ الايَةِ هَكَذَا إِنَّ الَّذِينَ... ظَلَمُوا آلَ مُحَمَّدٍ حَقَّهُمْ لَمْ يَكُنِ الله لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقاً. إِلا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها أَبَداً وَكانَ ذلِكَ عَلَى الله يَسِيراً ثُمَّ قَالَ يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فِي وَلايَةِ عَلِيٍّ فَآمِنُوا خَيْراً لَكُمْ وَإِنْ تَكْفُرُوا بِوَلايَةِ عَلِيٍّ فَإِنَّ لله ما فِي السَّماواتِ وَمَا فِي الارْضِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جبرئیل اس آیت کو اس طرح لے کر نازل ہوئے۔ جن لوگوں نے ظلم (آل محمد کے حق پر ) کیا خدا انھیں نہیں بخشے گا اور وہ سوائے جہنم کے راستہ کے اور کوئی راستہ ان کو دکھائے گا یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ پر آسان ہے۔ پھر فرمایا اے لوگو رسول تمہارے رب کی طرف سے (ولایت علی کے بارے میں) حق بات لے کر آیا ہے پس ایمان لاؤ کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر (ولایت) سے انکار کرو گے تو بے شک جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب خدا کا ہے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ رَحِمَهُ الله عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ عَنْ بَكَّارٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ هَكَذَا نَزَلَتْ هَذِهِ الايَةُ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا ما يُوعَظُونَ بِهِ فِي عَلِيٍّ لَكانَ خَيْراً لَهُمْ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی اگر وہ عمل کرتے اس پر جو (علی کے بارے میں) ان کو بتایا گیا ہے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔
أَحْمَدُ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ مَالِكٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام وَأُوحِيَ إِلَيَّ هذَا الْقُرْآنُ لانْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ قَالَ مَنْ بَلَغَ أَنْ يَكُونَ إِمَاماً مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ يُنْذِرُ بِالْقُرْآنِ كَمَا يُنْذِرُ بِهِ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )
راوی کہتا ہے میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا میرے اوپر یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں تم کو اسے سنا کر عذاب خدا سے ڈراؤں اور وہ بھی ڈرائے جو اس کی تبلیغ پر مامور ہو۔ یعنے آل محمد میں سے امام ہو تاکہ وہ بھی قرآن سنا کر اسی طرح ڈرائے جس طرح رسول ڈراتے تھے۔
أَحْمَدُ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مَيَّاحٍ عَمَّنْ أَخْبَرَهُ قَالَ قَرَأَ رَجُلٌ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى الله عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ فَقَالَ لَيْسَ هَكَذَا هِيَ إِنَّمَا هِيَ وَالْمَأْمُونُونَ فَنَحْنُ الْمَأْمُونُونَ۔
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے یہ آیت پڑھی عمل کرو (لیکن یہ سمجھتے ہوئے) کہ اللہ تمہارے عمل کو دیکھتا ہے اور اس کا رسول اور مخصوص مومنین۔ آپ سمجھ گئے کہ مومنین سے یہ عام مومنوں کو سمجھا ہے۔ فرمایا تو نے جو سمجھا ہے وہ غلط ہے مومن کے دو معنے ہیں ایک ایمان لانے والا اور دوسرے لوگوں کو غلط فتویٰ وغیرہ سے امان دلانے والا اور ہم وہ ہیں جن کو خدا نے غلطی سے محفوظ رکھا ہے یعنی اللہ و رسول کے ساتھ عام لوگ رویت اعمال خلائق کے گواہ اس دنیا میں کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ خدا نے ان میں وہ طاقت نہیں دی یہ رویت تو صرف ایسے ہی لوگوں سے متعلق ہو سکتی ہے جو صاحب عصمت ہوں اور دنیا کا ہر پردہ ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا ہوا ہو اور وہ سوائے آئمہ معصومین علیہم السلام کے دوسرے لوگ نہیں کر سکتے۔
أَحْمَدُ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ هَذَا صِرَاطُ عَلِيٍّ مُسْتَقِيم۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے قرآن میں تو یہ آیت یوں ہے ھذا صراط علی مستقیم لیکن آیت کا نزول یوں ہوا ھذا صراط علی مستقیم
أَحْمَدُ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ بِهَذِهِ الايَةِ هَكَذَا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ بِوَلايَةِ عَلِيٍّ إِلا كُفُوراً قَالَ وَنَزَلَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام بِهَذِهِ الايَةِ هَكَذَا وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فِي وَلايَةِ عَلِيٍّ فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنا لِلظَّالِمِينَ آلَ مُحَمَّدٍ ناراً۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے قرآن میں تو یہ آیت یوں ہے ھذا صراط علی مستقیم لیکن آیت کا نزول یوں ہوا ھذا صراط علی مستقیم۔
أَحْمَدُ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ بِهَذِهِ الايَةِ هَكَذَا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ بِوَلايَةِ عَلِيٍّ إِلا كُفُوراً قَالَ وَنَزَلَ جَبْرَئِيلُ (عَلَيْهِ السَّلام) بِهَذِهِ الايَةِ هَكَذَا وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فِي وَلايَةِ عَلِيٍّ فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنا لِلظَّالِمِينَ آلَ مُحَمَّدٍ ناراً.
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جبرئیل یہ آیت اس طرح لے کر نازل ہوئے۔ پس انکار کیا لوگوں نے (ولایت علی ) سے پورا پورا انکار۔ جبرئیل نے فرمایا یہ آیت یوں نازل ہوئی، حق تمہارے رب کی طرف سے ہے (ولایت علی میں) پس جس کا دل چاہے ایمان لے آئے اور جس کا دل چاہے کافر ہو جائے۔ ہم نے ظالمین (آلِ محمد) کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ وَأَنَّ الْمَساجِدَ لله فَلا تَدْعُوا مَعَ الله أَحَداً قَالَ هُمُ الاوْصِيَاءُ۔
فرمایا امام رضا علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق مساجد اللہ کی ہیں پس اللہ کے ساتھ اور کسی کو نہ بلاؤ۔ فرمایا وہ اوصیاٗ ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الاحْوَلِ عَنْ سَلامِ بْنِ الْمُسْتَنِيرِ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ تَعَالَى قُلْ هذِهِ سَبِيلِي أَدْعُوا إِلَى الله عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي قَالَ ذَاكَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَالاوْصِيَاءُ مِنْ بَعْدِهِمْ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے آیت ذیل کے متعلق فرمایا اے رسول کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے میں دانشمندی کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں بھی اور جو میرا پیرو ہے وہ بھی۔ اس سے مراد حضرت رسول خدا اور امیر المومنین اور بعد میں آنے والے ان کے اوصیأ ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ حَنَانٍ عَنْ سَالِمٍ الْحَنَّاطِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَأَخْرَجْنا مَنْ كانَ فِيها مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَما وَجَدْنا فِيها غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) آلُ مُحَمَّدٍ لَمْ يَبْقَ فِيهَا غَيْرُهُمْ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام باقر علیہ السلام سے سورۃ الذاریات کی اس آیت کے متعلق پوچھا۔ ہم نے اس قریہ سے مومنین کو (عذاب نازل کرنے سے پہلے ) نکال دیا اور ہم نے وہاں ایک مسلمان کے گھر کے سوا اور کوئی گھر نہ پایا۔ فرمایا حضرت نے اس امت میں اس کی نظیر آلِ محمد ہیں جن کے گھر کے سوا اور کوئی گھر ہدایتِ خلق کے لیے دنیا میں نہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَهْلٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِي السَّفَاتِجِ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام)فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ قَالَ هَذِهِ نَزَلَتْ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَصْحَابِهِ الَّذِينَ عَمِلُوا مَا عَمِلُوا يَرَوْنَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي أَغْبَطِ الامَاكِنِ لَهُمْ فَيُسِيءُ وُجُوهَهُمْ وَيُقَالُ لَهُمْ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ الَّذِي انْتَحَلْتُمِ اسْمَهُ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے سورۃ الملک کی اس آیت کے متعلق کہ جب انھوں نے (عذاب کو) دیکھا قریب تو کافروں کے چہرے بگڑ گئے۔ ان سے کہا گیا یہ وہی ہے جس کے تم خواستگار تھے۔ فرمایا کہ یہ آیت امیر المومنین اور ان لوگوں کے اصحاب کے بارے میں ہے جنھوں نے کیا جو کچھ کیا۔ جب یہ روز قیامت امیر المومنین کو سب سے زیادہ اعلیٰ مقامات پر دیکھیں گے تو ان کے چہرے بگڑ جائیں گے ان سے کہا جائے گا یہی ہیں وہ جن کے لقب سے تم پکارے جاتے تھے یعنی لوگ تم کو امیر المومنین کہتے تھے اور تم نے اپنے لیے یہ نام رکھ چھوڑا تھا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام)
سورۃ البروج کی اس آیت کے متعلق شاہد و مشہود (گواہ اور جس کی گواہی دی جائے) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ شاہد سے مراد امیر المومنین ہیں اور مشہود سے مراد حضرت رسولِ خدا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْحَلالِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ الله عَلَى الظَّالِمِينَ قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام)۔
سورۂ اعراف کی اس آیت کے متعلق امام رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ پس ایک اعلان کرنے والے نے ان کے درمیان اعلان کیا کہ بے شک اللہ کی لعنت ظالموں پر ہے۔ اس میں موذن سے مراد ہیں امیر المومنین۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلى صِراطِ الْحَمِيدِ قَالَ ذَاكَ حَمْزَةُ وَجَعْفَرٌ وَعُبَيْدَةُ وَسَلْمَانُ وَأَبُو ذَرٍّ وَالْمِقْدَادُ بْنُ الاسْوَدِ وَعَمَّارٌ هُدُوا إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَقَوْلِهِ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الايمانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ يَعْنِي أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيانَ الاوَّلَ وَالثَّانِيَ وَالثَّالِثَ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورۂ حج کی اس آیت کے متعلق ان کی رہنمائی کی گئی قول پاک و پاکیزہ کی طرف اور وہ ہدایت کئے گئے ستودہ صراط کی طرف ۔ فرمایا ان ہدایت یافتہ لوگوں سے مراد ہیں حمزہ و جعفر و عبیدہ و سلمان و ابوذر اور مقداد بن الاسود اور عمار اور ان کی رہنمائی کی گئی امیر المومنین کی طرف۔ اور سورہ الحجرات کی اس آیت کے متعلق فرمایا۔ خدا نے ایمان کی محبت تمہارے دلوں میں ڈالی اور تمہارے دلوں کی زینت بنایا (مراد ایمان سے امیر المومنین ہیں ) اور برا قرار دیا تمہارے لیے کفر و فسق و عصیان کو اس سے مراد ہیں فلاں فلاں فلاں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَمَّنْ أَخْبَرَهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ لَمَّا رَأَى رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) تَيْماً وَعَدِيّاً وَبَنِي أُمَيَّةَ يَرْكَبُونَ مِنْبَرَهُ أَفْظَعَهُ فَأَنْزَلَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى قُرْآناً يَتَأَسَّى بِهِ وَإِذْ قُلْنا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لادَمَ فَسَجَدُوا إِلا إِبْلِيسَ أَبى ثُمَّ أَوْحَى إِلَيْهِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَمَرْتُ فَلَمْ أُطَعْ فَلا تَجْزَعْ أَنْتَ إِذَا أَمَرْتَ فَلَمْ تُطَعْ فِي وَصِيِّكَ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے خواب میں بنی تیم و عدی و بنی امیہ کو اپنے منبر پر چڑھتے دیکھا تو حضرت کو اضطراب لاحق ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کے لیے آیت نازل کی۔ جب ہم نے ملائکہ کو سجدہ کا حکم دیا تو انھوں نے سجدہ کر لیا۔ مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ پھر وحی کی اے محمد میں نے حکم دیا تھا مگر میری اطاعت نہ کی گئی۔ تم غمگین نہ ہو اسی طرح جب تم اپنے وصی کے بارے میں حکم دو گے تو تمہاری بھی اطاعت نہ کی جائے گی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ نُعَيْمٍ الصَّحَّافِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِهِ فَمِنْكُمْ كافِرٌ وَمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ فَقَالَ عَرَفَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِيمَانَهُمْ بِمُوَالاتِنَا وَكُفْرَهُمْ بِهَا يَوْمَ أَخَذَ عَلَيْهِمُ الْمِيثَاقَ وَهُمْ ذَرٌّ فِي صُلْبِ آدَمَ وَسَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّما عَلى رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبِينُ فَقَالَ أَمَا وَالله مَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وَمَا هَلَكَ مَنْ هَلَكَ حَتَّى يَقُومَ قَائِمُنَا (عَلَيْهِ السَّلام) إِلا فِي تَرْكِ وَلايَتِنَا وَجُحُودِ حَقِّنَا وَمَا خَرَجَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى أَلْزَمَ رِقَابَ هَذِهِ الامَّةِ حَقَّنَا وَالله يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ۔
آیت تم میں سے کافر بھی ہیں اور تم میں سے مومن بھی ہیں۔ فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جبکہ سب لوگ صلبِ آدم میں تھے خدا نے معرفت کرائی ہماری موالات کی پس بعض نے قبول کر لیا اور بعض نے انکار کر دیا۔ راوی کہتا ہے میں نے آیت اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم نے روگردانی کی تو تم جانو ہمارے رسول پر تو کھلم کھلا ہمارے احکام کا تم تک پہنچا دینا ہے کے متعلق امام جعفر صادق سے پوچھا۔ فرمایا واللہ ہلاک ہوئے وہ جو تم سے پہلے تھے اور قائم آل محمد کے ظہور تک جہنمی بنیں گے لوگ اس بنأ پر کہ انھوں نے ہماری ولایت کو ترک کیا اور ہمارے حق سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ دنیا سے نہیں گئے مگر ایسی صورت میں کہ اس امت کی گردنوں پر ہمارے حق کا بار رکھ دیا اور اللہ صراط مستقیم کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُوسَى بْنِ الْقَاسِمِ الْبَجَلِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِيهِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ قَالَ الْبِئْرُ الْمُعَطَّلَةُ الامَامُ الصَّامِتُ وَالْقَصْرُ الْمَشِيدُ الامَامُ النَّاطِقُ. وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنِ الْعَمْرَكِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مِثْلَهُ۔
سورۂ حج کی اس آیت کے متعلق معطل کنواں اور مستحکم قصر کے متعلق امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ معطل کنواں (جس کا پانی نہ لیا جاتا ہو) سے مراد امام صامت ہے (یعنی جس کا زمانہ امامت شروع نہیں ہوا) اور قصر مشید سے مراد امام ناطق ہے (جس کی امامت کا زمانہ ہو) ۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ بُهْلُولٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ قَالَ يَعْنِي إِنْ أَشْرَكْتَ فِي الْوَلايَةِ غَيْرَهُ بَلِ الله فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ يَعْنِي بَلِ الله فَاعْبُدْ بِالطَّاعَةِ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ أَنْ عَضَدْتُكَ بِأَخِيكَ وَابْنِ عَمِّكَ۔
سورۂ زمر کی اس آیت کے متعلق اے رسول، اللہ نے وحی کی تمہاری طرف اور ان لوگوں کی طرف جو تم سے پہلے تھے اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل اکارت جائیگا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ اگر تم نے شریک کیا ولایت میں اس کے غیر کو۔ بس اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے شکرگزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔ یعنی اللہ ہی کی عبادت اس کی اطاعت میں کرو اور میں نے جو تمہارے بازو کو تمہارے بھائی اورر ابن عم کے ذریعہ مضبوط بنا دیا ہے تو اس کا شکر ادا کرو۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ الله ثُمَّ يُنْكِرُونَها قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَهُمْ راكِعُونَ اجْتَمَعَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الايَةِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنْ كَفَرْنَا بِهَذِهِ الايَةِ نَكْفُرُ بِسَائِرِهَا وَإِنْ آمَنَّا فَإِنَّ هَذَا ذُلٌّ حِينَ يُسَلِّطُ عَلَيْنَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا قَدْ عَلِمْنَا أَنَّ مُحَمَّداً صَادِقٌ فِيمَا يَقُولُ وَلَكِنَّا نَتَوَلاهُ وَلا نُطِيعُ عَلِيّاً فِيمَا أَمَرَنَا قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الايَةُ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ الله ثُمَّ يُنْكِرُونَها يَعْرِفُونَ يَعْنِي وَلايَةَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ بِالْوَلايَةِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد اور دادا سے سورۂ نحل کی اس آیت کے متعلق، وہ نعمت خدا پہچانتے ہیں پھر اس سے انکار کرتے ہیں روایت کی ہے کہ جب آیت انما ولیکم اللہ الخ نازل ہوئی تو مسجد مدینہ میں اصحاب رسول جمع ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ ایک نے کہا کہ اگر اس آیت سے انکار کرتے ہیں تو سب ہی سے انکار کرنا پڑے گا اور اگر ایمان لاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ذلت ہے کہ علی ابن ابی طالب کو ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ اور کہا ہم جانتے ہیں کہ محمد سچے ہیں لیکن ہم علی کی اطاعت نہ کریں گے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ۔ وہ اللہ کی نعمت کو پہچاننے کے بعد انکار کر دیتے ہیں ۔ پہچانتے ہیں ولایت علی کو اور اسی ولایت کا انکار کرتے ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَلامٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الارْضِ هَوْناً قَالَ هُمُ الاوْصِيَاءُ مِنْ مَخَافَةِ عَدُوِّهِمْ۔
سورۂ الفرقان کی اس آیت کے متعلق ، وہ زمین پر دبے دبے چلتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ اوصیائے رسول ہیں جو دشمنوں کے خوف سے ایسا کرتے ہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) أَصْلُهَا وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَرْعُهَا وَالائِمَّةُ مِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا أَغْصَانُهَا وَعِلْمُ الائِمَّةِ ثَمَرَتُهَا وَشِيعَتُهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَرَقُهَا هَلْ فِيهَا فَضْلٌ قَالَ قُلْتُ لا وَالله قَالَ وَالله إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُولَدُ فَتُورَقُ وَرَقَةٌ فِيهَا وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَمُوتُ فَتَسْقُطُ وَرَقَةٌ مِنْهَا۔
عمر بن حریث نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت کلمہ طیبہ کی مثال شجر طیبہ کی سی ہے جس کی اصل اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس کی شاخ آسمان پر ہے، کا مطلب دریافت کیا۔ آپؑ نے فرمایا اصل سے مراد ہے حضرت رسولِ خدا اور فرع سے ہیں امیر المومنین اور ان کی اولاد سے جو آئمہ ہیں وہ شاخیں ہیں اور علم آئمہ اس کا پھل ہیں اور ان کے شیعہ مومنین اس درخت کے پتے ہیں جب کوئی مومن مر جاتا ہے تو اس درخت کا ایک پتہ گر جاتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ حَمْدَانَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ الْيَمَانِيِّ عَنْ مَنِيعِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ يُونُسَ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ لا يَنْفَعُ نَفْساً إِيمانُها لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ يَعْنِي فِي الْمِيثَاقِ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً قَالَ الاقْرَارُ بِالانْبِيَاءِ وَالاوْصِيَاءِ وَأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) خَاصَّةً قَالَ لا يَنْفَعُ إِيمَانُهَا لانَّهَا سُلِبَتْ۔
ہشام نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سورۂ الانعام کی اس آیت کے متعلق پوچھا، نہیں نفع دے گا کسی شخص کو اس کا ایمان جب تک پہلے سے (یعنی روز میثاق) ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان کے ذریعہ کسبِ خیر نہ کیا ہو۔ امام نے فرمایا اس سے مراد ہے انبیأ اور اوصیأ بالخصوص امیر المومنین کا اقرار اور یہ بھی فرمایا کہ اس کا ایمان بغیر اس کے فائدہ نہ دے گا کیونکہ سلب کر لیا گیا ہو گا۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ يُونُسَ عَنْ صَبَّاحٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهما السَّلام) فِي قَوْلِ الله جَلَّ وَعَزَّ بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ قَالَ إِذَا جَحَدَ إِمَامَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ۔
ابوحمزہ نے امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہم السلام میں سے کسی ایک سے سورہ بقررہ کی اس آیت کی تفسیر پوچھی، ہاں جس نے گناہ کیا اور اس کی خطاؤں نے اسے گھیر لیا۔ فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے امامت امیر المومنین سے انکار کیا وہ لوگ دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ أَ فَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ الله كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ الله وَمَأْواهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ الله فَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا رِضْوَانَ الله هُمُ الائِمَّةُ وَهُمْ وَالله يَا عَمَّارُ دَرَجَاتٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَبِوَلايَتِهِمْ وَمَعْرِفَتِهِمْ إِيَّانَا يُضَاعِفُ الله لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَيَرْفَعُ الله لَهُمُ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى۔
عمار ساباطی نے کہا ہے میں نے سوال کیا ابو عبداللہ علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق، جس نے پیروی کی مرضیٔ الہٰی کی کیا وہ اس کی طرح ہے جس نے خدا کو غضب ناک کیا۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے اللہ کے نزدیک درجات ہیں۔ فرمایا جن لوگوں نے پیروی کی مرضیٔ الہٰی کہ وہ آئمہ ہیں اور واللہ اے عمار ان مومنین کے لیے درجات ہیں ان کی ولایت اور ہماری معرفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو زیادہ کرتا ہے اور ان کے درجات کو بلند کرتا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَغَيْرُهُ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ زِيَادٍ الْقَنْدِيِّ عَنْ عَمَّارٍ الاسَدِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَلايَتُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى صَدْرِهِ فَمَنْ لَمْ يَتَوَلَّنَا لَمْ يَرْفَعِ الله لَهُ عَمَلا۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت ، اس کی طرف چڑھتے ہیں پاک کلمات اور نیک اعمال کو وہ بلند کرتا ہے اور اعمالِ نیک ہم اہلبیت کی ولایت ہیں اور اپنا ہاتھ سینہ پر رکھ کر فرمایا جس نے ہم کو دوست نہ رکھا اللہ اس کے عمل کو بلند نہ کرے گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُوراً تَمْشُونَ بِهِ قَالَ إِمَامٌ تَأْتَمُّونَ بِهِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورۂ حدید کی اس آیت کے متعلق فرمایا ۔ وہ تم کو اپنی رحمت کے دو حصے برابر دے گا۔ کہ کفلین سے مراد حسن و حسین ہیں اور فرمایا خدا تمہارے لیے ایسا نور قرار دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو تم اس کو امام مانو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَوْهَرِيِّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِهِ وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَ حَقٌّ هُوَ قَالَ مَا تَقُولُ فِي عَلِيٍّ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ۔
سورۂ یونس کی اس آیت کے متعلق امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا۔ لوگ اے رسول تم سے پوچھتے ہیں کیا وہ حق ہے۔ امام نے راوی سے فرمایا تم علی کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ خدا نے فرمایا اے رسول تم ان سوال کرنے والوں سے کہہ دو خدا کی قسم ولایت علی حق ہے اور تم اپنے انکار سے ہمیں عاجز کرنے والے نہیں۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَوْلُهُ فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ فَقَالَ مَنْ أَكْرَمَهُ الله بِوَلايَتِنَا فَقَدْ جَازَ الْعَقَبَةَ وَنَحْنُ تِلْكَ الْعَقَبَةُ الَّتِي مَنِ اقْتَحَمَهَا نَجَا قَالَ فَسَكَتَ فَقَالَ لِي فَهَلا أُفِيدُكَ حَرْفاً خَيْرٌ لَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ قَوْلُهُ فَكُّ رَقَبَةٍ ثُمَّ قَالَ النَّاسُ كُلُّهُمْ عَبِيدُ النَّارِ غَيْرَكَ وَأَصْحَابِكَ فَإِنَّ الله فَكَّ رِقَابَكُمْ مِنَ النَّارِ بِوَلايَتِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے البلد کی اس آیت کے متعلق پوچھا۔ پس وہ گھاٹی سے کیوں نہ گزرا۔ فرمایا جس کو خدا نے نوازا ہماری ولایت سے وہ گھاٹی سے گزر گیا اور ہم ہی وہ گھاٹی ہیں وہ اس سے گزر گیا اس نے نجات پائی۔ میں خاموش ہو گیا۔ پھر حضرت نے مجھ سے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی بات بتاؤں جو تمہارے لیے بہتر ہو دنیا اور مافیہا میں۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں ضرور بتائیے۔ فرمایا، خدا نے فرمایا ہے فک رقبۃ (کسی کو آزاد کرنا) پس تمام آدمی جہنم کے کندے ہیں سوائے ہمارے اصحاب کے۔ تم کو ہماری ولایت کی وجہ سے نار جہنم سے آزاد کر دیا گیا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله جَلَّ وَعَزَّ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي قَالَ بِوَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) أُوفِ بِعَهْدِكُمْ أُوفِ لَكُمْ بِالْجَنَّةِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت، تم میرا عہد وفا کرو ولایت علی کے بارے میں میں تمہیں جنت دے کر اپنا وعدہ پورا کروں گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا بَيِّناتٍ قالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا قَالَ كَانَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) دَعَا قُرَيْشاً إِلَى وَلايَتِنَا فَنَفَرُوا وَأَنْكَرُوا فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قُرَيْشٍ لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ أَقَرُّوا لامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَلَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا تَعْيِيراً مِنْهُمْ فَقَالَ الله رَدّاً عَلَيْهِمْ وَكَمْ أَهْلَكْنا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ مِنَ الامَمِ السَّالِفَةِ هُمْ أَحْسَنُ أَثاثاً وَرِءْياً قُلْتُ قَوْلُهُ مَنْ كانَ فِي الضَّلالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمنُ مَدًّا قَالَ كُلُّهُمْ كَانُوا فِي الضَّلالَةِ لا يُؤْمِنُونَ بِوَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَلا بِوَلايَتِنَا فَكَانُوا ضَالِّينَ مُضِلِّينَ فَيَمُدُّ لَهُمْ فِي ضَلالَتِهِمْ وَطُغْيَانِهِمْ حَتَّى يَمُوتُوا فَيُصَيِّرُهُمُ الله شَرّاً مَكَاناً وَأَضْعَفَ جُنْداً قُلْتُ قَوْلُهُ حَتَّى إِذا رَأَوْا ما يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَكاناً وَأَضْعَفُ جُنْداً قَالَ أَمَّا قَوْلُهُ حَتَّى إِذا رَأَوْا ما يُوعَدُونَ فَهُوَ خُرُوجُ الْقَائِمِ وَهُوَ السَّاعَةُ فَسَيَعْلَمُونَ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَمَا نَزَلَ بِهِمْ مِنَ الله عَلَى يَدَيْ قَائِمِهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَكاناً يَعْنِي عِنْدَ الْقَائِمِ وَأَضْعَفُ جُنْداً قُلْتُ قَوْلُهُ وَيَزِيدُ الله الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً قَالَ يَزِيدُهُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ هُدًى عَلَى هُدًى بِاتِّبَاعِهِمُ الْقَائِمَ حَيْثُ لا يَجْحَدُونَهُ وَلا يُنْكِرُونَهُ قُلْتُ قَوْلُهُ لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً قَالَ إِلا مَنْ دَانَ الله بِوَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَالائِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ فَهُوَ الْعَهْدُ عِنْدَ الله قُلْتُ قَوْلُهُ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا قَالَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ هِيَ الْوُدُّ الَّذِي قَالَ الله تَعَالَى قُلْتُ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُدًّا قَالَ إِنَّمَا يَسَّرَهُ الله عَلَى لِسَانِهِ حِينَ أَقَامَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَماً فَبَشَّرَ بِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْذَرَ بِهِ الْكَافِرِينَ وَهُمُ الَّذِينَ ذَكَرَهُمُ الله فِي كِتَابِهِ لُدّاً أَيْ كُفَّاراً قَالَ وَسَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِ الله لِتُنْذِرَ قَوْماً ما أُنْذِرَ آباؤُهُمْ فَهُمْ غافِلُونَ قَالَ لِتُنْذِرَ الْقَوْمَ الَّذِينَ أَنْتَ فِيهِمْ كَمَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ عَنِ الله وَعَنْ رَسُولِهِ وَعَنْ وَعِيدِهِ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلى أَكْثَرِهِمْ مِمَّنْ لا يُقِرُّونَ بِوَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَالائِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ فَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ بِإِمَامَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَالاوْصِيَاءِ مِنْ بَعْدِهِ فَلَمَّا لَمْ يُقِرُّوا كَانَتْ عُقُوبَتُهُمْ مَا ذَكَرَ الله إِنَّا جَعَلْنا فِي أَعْناقِهِمْ أَغْلالاً فَهِيَ إِلَى الاذْقانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ثُمَّ قَالَ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْناهُمْ فَهُمْ لا يُبْصِرُونَ عُقُوبَةً مِنْهُ لَهُمْ حَيْثُ أَنْكَرُوا وَلايَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَالائِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ هَذَا فِي الدُّنْيَا وَفِي الاخِرَةِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ مُقْمَحُونَ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ وَسَواءٌ عَلَيْهِمْ أَ أَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ بِالله وَبِوَلايَةِ عَلِيٍّ وَمَنْ بَعْدَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّما تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ يَعْنِي أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَخَشِيَ الرَّحْمنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ يَا مُحَمَّدُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ۔
ابوبصیر نے روایت کی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورۂ مریم کی اس آیت کے متعلق فرمایا۔ جب ہماری روشن آیات ان پر تلاوت کی گئیں تو منکرین ولایت علی نے ان لوگوں سے کہا جو ایمان لے آئے تھے بتاؤ ہم دونوں فریق میں ازروئے مقام محفل کون اچھا ہے۔ یعنی ہماری جماعت بھی زیادہ ہے اور ہمارے عالم بھی بہت ہیں دولت اور حکومت بھی ہمارے پاس ہے اور تم گنتی کے چند آدمی ہو جو کسمپرسی کی زندگی بسرر کر رہے ہو۔ تمہیں بتاؤں تم دونوں میں کون بہتر ہے۔
حضرت نے فرمایا رسولِ خدا نے قریش کو بلایا اور ہماری ولایت کی دعوت دی انھوں نے اظہار نفرت کیا اور انکار کر دیا۔ پس انکار کرنے والے قریش نے مومنین نے کہا، تم نے امیر المومنین اور ہم اہلبیت کی ولایت کا اقرار کر لیا لیکن یہ تو بتاؤ کہ ہم دونوں فریق میں ازروئے مقام اور عیش و راحت اچھا کون رہا اور ان کو عیب لگایا۔ خدا نے ان کی تردید میں فرمایا اور پہلی صدیوں میں ان سے پہلے کتنوں کو ہلاک کر دیا سابق امتیں۔ حالانکہ وہ سازو سامان اور ظاہری نمود میں ان سے زیادہ تھیں۔
میں نے اس آیت کا مطلب پوچھا جو کوئی گمراہی میں ہے تو خدا اس کے لیے ڈھیل چھوڑ دیتا ہے۔ امام نے فرمایا وہ لوگ گمراہی میں تھے اور امیر المومنین کی ولایت پر ایمان نہیں لائے اور نہ ہماری ولایت کا اقرار کیا تو یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ پس یہ اپنی گمراہی اور سرکشی کی بدولت گمراہی میں پڑ گئے اسی حالت میں مرے۔ خدا نے اس طرح ان کو بدترین مکان میں پہنچا دیا اور ان کے لشکر کو کمزور بنا دیا۔
میں نے کہا اور اس آیت کا مطلب کیا ہے، جب وہ اپنی آنکھوں سے اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے یا عذاب یا قیامت تب ان کو پتہ چلے گا کہ بدترین جگہ میں کون ہے اور کس کا گروہ کمزور ہے۔
فرمایا یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ جو ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ دیکھیں گئے اس سے خروج قائم آل محمد ہے ساعت سے یہی مراد ہے وہ اس وقت جانیں گے کہ یہی وہ دن ہے اورر قائم آل محمد کے ہاتھوں جو ان پر خدا کی طرف سے عذاب نازل ہو گا اس کا بھی پتہ چل جائے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ وہ جان لیں گے کہ ازروئے بدترین مقام اور کمزور کون ہے۔ میں نے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ اور اللہ زیادہ کرتا ہے ان لوگوں کی ہدایت کو۔ فرمایا جنھوں نے قائم آلِ محمد کا اتباع کیا۔ حضرت کے خروج کے وقت پھر کسی کو انکار کرتے نہ بن پڑے گی۔ میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے، نہیں ہوں گے مالک شفاعت کے مگر وہی لوگ جنھوں نے خدا سے عہد کیا ہو گا۔ حضرت نے فرمایا جنھوں نے ولایت امیر المومنینؑ اور ان کے بعد کے آئمہ سےے قربت خدا حاصل کی۔ مراد ہے اور یہی وہ عہد ہے جو من عنداللہ ہے۔
میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے، جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے خدا اپنی محبت ان کے لیے قرار دے گا۔ فرمایا جس دو کا ذکر خدا نے کیا ہے وہ ولایت امیر المومنین ہے۔ میں نے کہا اس آیت کا مطلب ہم نے اے رسول تیری زبان پر ان کو آسان کر دیا ہے تاکہ تو متقیوں کو بشارت دے اور جھگڑا کرنے والے لوگوں کو اس سے ڈرائے۔
فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے رسول کی زبان پر آسانی سے جاری کیا قرآن کو جبکہ آپ نے روز غدیر خم اپنا قائم مقام بنایا ۔ پس بشارت دی اس کو مومنین کو اور ڈررایا اس سے کافروں کو پس کتابِ خدا میں جن کو قوم لدا (جھگڑالو قوم) کہا گیا ہے وہی منکرینِ ولایت امیر المومنین مراد ہیں۔ پھر میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا تاکہ اے رسول تو اس قوم کو ڈررائے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اس قوم کو ڈراؤ جس میں تم ہو جیسے کہ تم سے پہلے انبیأ و مرسلین نے ان کو ڈرایا تھا مگر وہ خدا اور اس کے رسول اور اس وعدہ عذاب سے غافل ہی رہے حالانکہ ان کے اکثرپر حق بات واضح ہو گئی تھی (ان لوگوں پر جنھوں نے ولایت امیر المومنین کا اور دیگر آئمہ کا اقرار نہیں کیا)۔
یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے امامت امیر المومنین اور ان کے اوصیاٗ پر، پس جب انھوں نے اقرار نہ کیا تو ان کی سزا کا ذکر خدا نے یوں کیا ہے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں اٹھائے ہوئے ہیں (جھکا نہیں سکتے) ہم نے ایک دیوار ان کے آگے بنا دی ہے اور ایک ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانپ دیا ہے تو وہ اب کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ یہ سزا ہے اس بات کی کہ انھوں نے ولایت امیر المومنین اور دیگر آئمہ علیہم السلام سے انکار کیا ہے یہ تو دنیا کی سزا ہے (کہ وہ ذلیل ہیں) اور آخرت میں جہنم کی آگ ان کے لیے ہے۔ اور فرمایا اے محمد تم ان کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے والے (ولایت علی پر) نہیں۔ پھر خدا فرماتا ہے اے رسول تم تو اسی کو ڈراؤ گے جو ذکر(امیر المومنین) کی پیروی کرے اور اللہ سے ڈرے غیب کے متعلق (اے محمد) اسے بشارت دے دو، مغفرت اور بہت بڑے اجر کی۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَاضِي (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ قَالَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا وَلايَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) بِأَفْوَاهِهِمْ قُلْتُ وَالله مُتِمُّ نُورِهِ قَالَ وَالله مُتِمُّ الامَامَةِ لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ فَآمِنُوا بِالله وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنا فَالنُّورُ هُوَ الامَامُ قُلْتُ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ قَالَ هُوَ الَّذِي أَمَرَ رَسُولَهُ بِالْوَلايَةِ لِوَصِيِّهِ وَالْوَلايَةُ هِيَ دِينُ الْحَقِّ قُلْتُ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ قَالَ يُظْهِرُهُ عَلَى جَمِيعِ الادْيَانِ عِنْدَ قِيَامِ الْقَائِمِ قَالَ يَقُولُ الله وَالله مُتِمُّ نُورِهِ وَلايَةِ الْقَائِمِ وَلَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ بِوَلايَةِ عَلِيٍّ قُلْتُ هَذَا تَنْزِيلٌ قَالَ نَعَمْ أَمَّا هَذَا الْحَرْفُ فَتَنْزِيلٌ وَأَمَّا غَيْرُهُ فَتَأْوِيلٌ قُلْتُ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَمَّى مَنْ لَمْ يَتَّبِعْ رَسُولَهُ فِي وَلايَةِ وَصِيِّهِ مُنَافِقِينَ وَجَعَلَ مَنْ جَحَدَ وَصِيَّهُ إِمَامَتَهُ كَمَنْ جَحَدَ مُحَمَّداً وَأَنْزَلَ بِذَلِكَ قُرْآناً فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ بِوَلايَةِ وَصِيِّكَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ الله وَالله يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَالله يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ بِوَلايَةِ عَلِيٍّ لَكاذِبُونَ. اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ الله وَالسَّبِيلُ هُوَ الْوَصِيُّ إِنَّهُمْ ساءَ ما كانُوا يَعْمَلُونَ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا بِرِسَالَتِكَ وَكَفَرُوا بِوَلايَةِ وَصِيِّكَ فَطُبِعَ الله عَلى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لا يَفْقَهُونَ قُلْتُ مَا مَعْنَى لا يَفْقَهُونَ قَالَ يَقُولُ لا يَعْقِلُونَ بِنُبُوَّتِكَ قُلْتُ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ تَعالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ الله قَالَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْجِعُوا إِلَى وَلايَةِ عَلِيٍّ يَسْتَغْفِرْ لَكُمُ النَّبِيُّ مِنْ ذُنُوبِكُمْ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ قَالَ الله وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ عَنْ وَلايَةِ عَلِيٍّ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ عَلَيْهِ ثُمَّ عَطَفَ الْقَوْلَ مِنَ الله بِمَعْرِفَتِهِ بِهِمْ فَقَالَ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ الله لَهُمْ إِنَّ الله لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقِينَ يَقُولُ الظَّالِمِينَ لِوَصِيِّكَ قُلْتُ أَ فَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ قَالَ إِنَّ الله ضَرَبَ مَثَلَ مَنْ حَادَ عَنْ وَلايَةِ عَلِيٍّ كَمَنْ يَمْشِي عَلَى وَجْهِهِ لا يَهْتَدِي لامْرِهِ وَجَعَلَ مَنْ تَبِعَهُ سَوِيّاً عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَالصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ قَوْلُهُ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ قَالَ يَعْنِي جَبْرَئِيلَ عَنِ الله فِي وَلايَةِ علي (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ وَما هُوَ بِقَوْلِ شاعِرٍ قَلِيلاً ما تُؤْمِنُونَ قَالَ قَالُوا إِنَّ مُحَمَّداً كَذَّابٌ عَلَى رَبِّهِ وَمَا أَمَرَهُ الله بِهَذَا فِي عَلِيٍّ فَأَنْزَلَ الله بِذَلِكَ قُرْآناً فَقَالَ إِنَّ وَلايَةَ عَلِيٍّ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعالَمِينَ. وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنا مُحَمَّدٌ بَعْضَ الاقاوِيلِ. لاخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ. ثُمَّ لَقَطَعْنا مِنْهُ الْوَتِينَ ثُمَّ عَطَفَ الْقَوْلَ فَقَالَ إِنَّ وَلايَةَ عَلِيٍّ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ لِلْعَالَمِينَ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُكَذِّبِينَ. وَإِنَّ عَلِيّاً لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ. وَإِنَّ وَلايَتَهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ. فَسَبِّحْ يَا مُحَمَّدُ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ يَقُولُ اشْكُرْ رَبَّكَ الْعَظِيمَ الَّذِي أَعْطَاكَ هَذَا الْفَضْلَ قُلْتُ قَوْلُهُ لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدى آمَنَّا بِهِ قَالَ الْهُدَى الْوَلايَةُ آمَنَّا بِمَوْلانَا فَمَنْ آمَنَ بِوَلايَةِ مَوْلاهُ فَلا يَخافُ بَخْساً وَلا رَهَقاً قُلْتُ تَنْزِيلٌ قَالَ لا تَأْوِيلٌ قُلْتُ. قَوْلُهُ لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلا رَشَداً قَالَ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ دَعَا النَّاسَ إِلَى وَلايَةِ عَلِيٍّ فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ أَعْفِنَا مِنْ هَذَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ الله ﷺ هَذَا إِلَى الله لَيْسَ إِلَيَّ فَاتَّهَمُوهُ وَخَرَجُوا مِنْ عِنْدِهِ فَأَنْزَلَ الله قُلْ إِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلا رَشَداً. قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ الله إِنْ عَصَيْتُهُ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً إِلا بَلاغاً مِنَ الله وَرِسَالاتِهِ فِي عَلِيٍّ قُلْتُ هَذَا تَنْزِيلٌ قَالَ نَعَمْ ثُمَّ قَالَ تَوْكِيداً وَمَنْ يَعْصِ الله وَرَسُولَهُ فِي وَلايَةِ عَلِيٍّ فَإِنَّ لَهُ نارَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها أَبَداً قُلْتُ حَتَّى إِذا رَأَوْا ما يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ ناصِراً وَأَقَلُّ عَدَداً يَعْنِي بِذَلِكَ الْقَائِمَ وَأَنْصَارَهُ قُلْتُ وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ قَالَ يَقُولُونَ فِيكَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلاً. وَذَرْنِي يَا مُحَمَّدُ وَالْمُكَذِّبِينَ بِوَصِيِّكَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلاً قُلْتُ إِنَّ هَذَا تَنْزِيلٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ قَالَ يَسْتَيْقِنُونَ أَنَّ الله وَرَسُولَهُ وَوَصِيَّهُ حَقٌّ قُلْتُ وَيَزْدادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيماناً قَالَ وَيَزْدَادُونَ بِوَلايَةِ الْوَصِيِّ إِيمَاناً قُلْتُ وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ قَالَ بِوَلايَةِ علي قُلْتُ مَا هَذَا الارْتِيَابُ قَالَ يَعْنِي بِذَلِكَ أَهْلَ الْكِتَابِ وَالْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ ذَكَرَ الله فَقَالَ وَلا يَرْتَابُونَ فِي الْوَلايَةِ قُلْتُ وَما هِيَ إِلا ذِكْرى لِلْبَشَرِ قَالَ نَعَمْ وَلايَةُ علي قُلْتُ إِنَّها لاحْدَى الْكُبَرِ قَالَ الْوَلايَةُ قُلْتُ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ قَالَ مَنْ تَقَدَّمَ إِلَى وَلايَتِنَا أُخِّرَ عَنْ سَقَرَ وَمَنْ تَأَخَّرَ عَنَّا تَقَدَّمَ إِلَى سَقَرَ إِلا أَصْحابَ الْيَمِينِ قَالَ هُمْ وَالله شِيعَتُنَا قُلْتُ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ قَالَ إِنَّا لَمْ نَتَوَلَّ وَصِيَّ مُحَمَّدٍ وَالاوْصِيَاءَ مِنْ بَعْدِهِ وَلا يُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ قُلْتُ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ قَالَ عَنِ الْوَلايَةِ مُعْرِضِينَ قُلْتُ كَلا إِنَّها تَذْكِرَةٌ قَالَ الْوَلايَةُ قُلْتُ قَوْلُهُ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ قَالَ يُوفُونَ لله بِالنَّذْرِ الَّذِي أَخَذَ عَلَيْهِمْ فِي الْمِيثَاقِ مِنْ وَلايَتِنَا قُلْتُ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلاً قَالَ بِوَلايَةِ علي تَنْزِيلاً قُلْتُ هَذَا تَنْزِيلٌ قَالَ نَعَمْ ذَا تَأْوِيلٌ قُلْتُ إِنَّ هذِهِ تَذْكِرَةٌ قَالَ الْوَلايَةُ قُلْتُ يُدْخِلُ مَنْ يَشاءُ فِي رَحْمَتِهِ قَالَ فِي وَلايَتِنَا قَالَ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً أَ لا تَرَى أَنَّ الله يَقُولُ وَما ظَلَمُونا وَلكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ قَالَ إِنَّ الله أَعَزُّ وَأَمْنَعُ مِنْ أَنْ يَظْلِمَ أَوْ يَنْسُبَ نَفْسَهُ إِلَى ظُلْمٍ وَلَكِنَّ الله خَلَطَنَا بِنَفْسِهِ فَجَعَلَ ظُلْمَنَا ظُلْمَهُ وَوَلايَتَنَا وَلايَتَهُ ثُمَّ أَنْزَلَ بِذَلِكَ قُرْآناً عَلَى نَبِيِّهِ فَقَالَ وَما ظَلَمْناهُمْ وَلكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ قُلْتُ هَذَا تَنْزِيلٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ قَالَ يَقُولُ وَيْلٌ لِلْمُكَذِّبِينَ يَا مُحَمَّدُ بِمَا أَوْحَيْتُ إِلَيْكَ مِنْ وَلايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَ لَمْ نُهْلِكِ الاوَّلِينَ. ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الاخِرِينَ قَالَ الاوَّلِينَ الَّذِينَ كَذَّبُوا الرُّسُلَ فِي طَاعَةِ الاوْصِيَاءِ كَذلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ قَالَ مَنْ أَجْرَمَ إِلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَرَكِبَ مِنْ وَصِيِّهِ مَا رَكِبَ قُلْتُ إِنَّ الْمُتَّقِينَ قَالَ نَحْنُ وَالله وَشِيعَتُنَا لَيْسَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ غَيْرُنَا وَسَائِرُ النَّاسِ مِنْهَا بُرَآءُ قُلْتُ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا لا يَتَكَلَّمُونَ الايَةَ قَالَ نَحْنُ وَالله الْمَأْذُونُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالْقَائِلُونَ صَوَاباً قُلْتُ مَا تَقُولُونَ إِذَا تَكَلَّمْتُمْ قَالَ نُمَجِّدُ رَبَّنَا وَنُصَلِّي عَلَى نَبِيِّنَا وَنَشْفَعُ لِشِيعَتِنَا فَلا يَرُدُّنَا رَبُّنَا قُلْتُ كَلا إِنَّ كِتابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ قَالَ هُمُ الَّذِينَ فَجَرُوا فِي حَقِّ الائِمَّةِ وَاعْتَدَوْا عَلَيْهِمْ قُلْتُ ثُمَّ يُقَالُ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ قَالَ يَعْنِي أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قُلْتُ تَنْزِيلٌ قَالَ نَعَمْ۔
ابوبصیر نے روایت کی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورۂ مریم کی اس آیت کے متعلق فرمایا۔ جب ہماری روشن آیات ان پر تلاوت کی گئیں تو منکرین ولایت علی نے ان لوگوں سے کہا جو ایمان لے آئے تھے بتاؤ ہم دونوں فریق میں ازروئے مقام محفل کون اچھا ہے۔ یعنی ہماری جماعت بھی زیادہ ہے اور ہمارے عالم بھی بہت ہیں دولت اور حکومت بھی ہمارے پاس ہے اور تم گنتی کے چند آدمی ہو جو کسمپرسی کی زندگی بسرر کر رہے ہو۔ تمہیں بتاؤں تم دونوں میں کون بہتر ہے۔
حضرت نے فرمایا رسولِ خدا نے قریش کو بلایا اور ہماری ولایت کی دعوت دی انھوں نے اظہار نفرت کیا اور انکار کر دیا۔ پس انکار کرنے والے قریش نے مومنین نے کہا، تم نے امیر المومنین اور ہم اہلبیت کی ولایت کا اقرار کر لیا لیکن یہ تو بتاؤ کہ ہم دونوں فریق میں ازروئے مقام اور عیش و راحت اچھا کون رہا اور ان کو عیب لگایا۔ خدا نے ان کی تردید میں فرمایا اور پہلی صدیوں میں ان سے پہلے کتنوں کو ہلاک کر دیا سابق امتیں۔ حالانکہ وہ سازو سامان اور ظاہری نمود میں ان سے زیادہ تھیں۔
میں نے اس آیت کا مطلب پوچھا جو کوئی گمراہی میں ہے تو خدا اس کے لیے ڈھیل چھوڑ دیتا ہے۔ امام نے فرمایا وہ لوگ گمراہی میں تھے اور امیر المومنین کی ولایت پر ایمان نہیں لائے اور نہ ہماری ولایت کا اقرار کیا تو یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ پس یہ اپنی گمراہی اور سرکشی کی بدولت گمراہی میں پڑ گئے اسی حالت میں مرے۔ خدا نے اس طرح ان کو بدترین مکان میں پہنچا دیا اور ان کے لشکر کو کمزور بنا دیا۔
میں نے کہا اور اس آیت کا مطلب کیا ہے، جب وہ اپنی آنکھوں سے اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے یا عذاب یا قیامت تب ان کو پتہ چلے گا کہ بدترین جگہ میں کون ہے اور کس کا گروہ کمزور ہے۔
فرمایا یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ جو ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ دیکھیں گئے اس سے خروج قائم آل محمد ہے ساعت سے یہی مراد ہے وہ اس وقت جانیں گے کہ یہی وہ دن ہے اورر قائم آل محمد کے ہاتھوں جو ان پر خدا کی طرف سے عذاب نازل ہو گا اس کا بھی پتہ چل جائے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ وہ جان لیں گے کہ ازروئے بدترین مقام اور کمزور کون ہے۔ میں نے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ اور اللہ زیادہ کرتا ہے ان لوگوں کی ہدایت کو۔ فرمایا جنھوں نے قائم آلِ محمد کا اتباع کیا۔ حضرت کے خروج کے وقت پھر کسی کو انکار کرتے نہ بن پڑے گی۔ میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے، نہیں ہوں گے مالک شفاعت کے مگر وہی لوگ جنھوں نے خدا سے عہد کیا ہو گا۔ حضرت نے فرمایا جنھوں نے ولایت امیر المومنینؑ اور ان کے بعد کے آئمہ سےے قربت خدا حاصل کی۔ مراد ہے اور یہی وہ عہد ہے جو من عنداللہ ہے۔
میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے، جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے خدا اپنی محبت ان کے لیے قرار دے گا۔ فرمایا جس دو کا ذکر خدا نے کیا ہے وہ ولایت امیر المومنین ہے۔ میں نے کہا اس آیت کا مطلب ہم نے اے رسول تیری زبان پر ان کو آسان کر دیا ہے تاکہ تو متقیوں کو بشارت دے اور جھگڑا کرنے والے لوگوں کو اس سے ڈرائے۔
فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے رسول کی زبان پر آسانی سے جاری کیا قرآن کو جبکہ آپ نے روز غدیر خم اپنا قائم مقام بنایا ۔ پس بشارت دی اس کو مومنین کو اور ڈررایا اس سے کافروں کو پس کتابِ خدا میں جن کو قوم لدا (جھگڑالو قوم) کہا گیا ہے وہی منکرینِ ولایت امیر المومنین مراد ہیں۔ پھر میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا تاکہ اے رسول تو اس قوم کو ڈررائے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اس قوم کو ڈراؤ جس میں تم ہو جیسے کہ تم سے پہلے انبیأ و مرسلین نے ان کو ڈرایا تھا مگر وہ خدا اور اس کے رسول اور اس وعدہ عذاب سے غافل ہی رہے حالانکہ ان کے اکثرپر حق بات واضح ہو گئی تھی (ان لوگوں پر جنھوں نے ولایت امیر المومنین کا اور دیگر آئمہ کا اقرار نہیں کیا)۔
یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے امامت امیر المومنین اور ان کے اوصیاٗ پر، پس جب انھوں نے اقرار نہ کیا تو ان کی سزا کا ذکر خدا نے یوں کیا ہے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں اٹھائے ہوئے ہیں (جھکا نہیں سکتے) ہم نے ایک دیوار ان کے آگے بنا دی ہے اور ایک ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانپ دیا ہے تو وہ اب کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ یہ سزا ہے اس بات کی کہ انھوں نے ولایت امیر المومنین اور دیگر آئمہ علیہم السلام سے انکار کیا ہے یہ تو دنیا کی سزا ہے (کہ وہ ذلیل ہیں) اور آخرت میں جہنم کی آگ ان کے لیے ہے۔ اور فرمایا اے محمد تم ان کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے والے (ولایت علی پر) نہیں۔ پھر خدا فرماتا ہے اے رسول تم تو اسی کو ڈراؤ گے جو ذکر(امیر المومنین) کی پیروی کرے اور اللہ سے ڈرے غیب کے متعلق (اے محمد) اسے بشارت دے دو، مغفرت اور بہت بڑے اجر کی۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق سوال کیا ، وہ چاہتے ہیں کہ نورِ خدا کو پھونکوں سے بجھا دیں۔ فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے منہ سے نور ولایت امیر المومنین کو بجھانا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا اور اس آیت کا مطلب کیا ہے، اللہ اس کے نور کو پورا کر دے گا۔ فرمایا اس سے مراد امامت کی تکمیل ہے جیسا کہ اس نے فرمایا ، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس نور پر بھی جس کو ہم نے نازل کیا۔ پس یہاں نور سے مراد امام ہے۔
میں نے پوچھا اور اس آیت کا کیا مطلب ہے، اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ برحق کے لیے بھیجا۔ فرمایا مطلب یہ ہے کہ اپنے رسول کو ولایت کی وصیت کا حکم دیا اور ولایت ہی دینِ حق ہے۔ میں نے پوچھا اس آیت کا کیا مطلب ہے، تا کہ وہ دینِ حق کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔ فرمایا مطلب یہ ہے کہ قائم آلِ محمد کے ظہور کے وقت تمام ادیان پر غالب کر دے گا۔ خدا فرماتا ہے اللہ اس کے نور کو پورا کرنے والا ہے یعنی ولایت قائم کا اگرچہ کافر لوگ ولایت علی کو ناپسند کریں۔ میں نے کہا یہ الفاظ تنزیل ہیں، فرمایا پہلی آیت میں یریدون لیطفؤا الخ میں تنزیل ہے اور دوسری آیت لیظھرہ میں تاویل ہے۔
میں نے کہا کیا مطلب ہے اس آیت کا، وہ ایمان لائے پھر کفر کیا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے منافقین میں ان لوگوں کو جنھوں نے اتباع نہ کیا خدا کے رسول کا، ان کے وصی کی ولایت کے متعلق اور خدا نے ان لوگوں کو جنھوں نے ولایت وصی سے انکار کیا، مثل ان لوگون کے قرار دیا ہے جنھوں نے محمد کی نبوت سے انکار کیا اور قرآن میں فرمایا، اے محمد جب منافقین تمہارے پاس (تمہارے وصی کے بارے میں کچھ کہنے ) آئیں اور کہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین (ولایت علی کو ماننے کے متعلق) جھوٹے ہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں میں مہر لگا دی ہے اس لیے وہ نہیں سمجھتے یعنی تمہاری نبوت ہی کو نہیں مانتے۔
میں نے کہا اس آیت کا کیا مطلب ہے ، آؤ تاکہ رسولِ خدا تمہارے لیے استغفار کریں، تو حضرت نے فرمایا جب ان سے کہا گیا کہ ولایت علی کی طرف رجوع کرو تاکہ رسول تمہارے گناہوں کے لیے خدا سے استغفار کریں تو انھوں نے سر جھکا لیے، خدا فرماتا ہے اے رسول تم نے دیکھا کہ وہ (ولایت علی) سے روگردانی کر رہے ہیں اور وہ تکبر کر رہے ہیں۔ پھر خدا نے کلام کا رخ بدل کر کہا، اے رسول تم ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ خدا قوم بدکار کی ہدایت نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے اے رسول یہ تمہارے وصی کے بارے میں ظلم کرنے والے ہیں۔
میں نے کہا کیا مطلب ہے سورۃ الملک کی اس آیت کا، کیا وہ شخص جو اوندھے منہ راستہ چل رہا ہے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا وہ جو صراط مستقیم پر راستہ چل رہا ہے۔ حضرت نے فرمایا اللہ نے مثال دی ہے اس شخص کی جو ولایت علی کا منکر ہو اس اوندھے منہ چلے اور ان کے امر سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور دوسرا شخص وہ ہے جو صراطِ مستقیم پر چلے اور صراط مستقیم علی ہیں۔ میں نے کہا کیا مطلب ہے اس آیت کا، یہ قول رسول کریم ہے۔ فرمایا جبرئیل جو خدا کی طرف سے لائے کہ ولایت علی کے بارے میں، میں نے کہا اس آیت کا کیا مطلب ہے، وہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے کہ تم اس پر کم ایمان لائے۔ فرمایا لوگوں نے کہا محمد نے اپنے رب پر جھوٹ بولا ہے۔ خدا نے علی کے بارے میں میں ایسا نہیں کیا۔ پس خدا نے قرآن میں نازل فرمایا (ولایت علی) رب العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اگر محمد بعض باتوں میں غلط بیانی کرتے تو ہم ان کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر ان کی رگ گردن کاٹ دیتے۔ پھر کلام کا رخ بدل کر کہا بے شک (ولایت علی) متقیوں کے لیے تذکرہ ہے (تمام عالموں میں) اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض جھٹلانے والے ہیں اور بے شک علی کے بارے میں حرمت ہے کافروں کے لیے اور بے شک (ولایت علی) حق الیقین ہے۔ پس اے محمد تم رب عظیم کے نام کی تسبیح پڑھو، یعنی فرماتا ہے کہ اس رب عظیم کا شکر کرو جس نے تم کو یہ فضیلت عطا کی۔
میں نے کہا سورۂ جن کی اس آیت کا کیا مطلب ہے، جب ہم نے ہدایت کو سنا تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ امام نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جو اپنے مولا کی ولایت پر ایمان لے آیا اسے نہ نقصان کا خوف ہے نہ ظلم کا۔ میں نے کہا یہ الفاظ داخل تنزیل ہیں۔ فرمایا نہیں داخل تاویل ہیں۔ میں نے کہا کیا مطلب ہے اس آیت کا ، میں نہیں قدرت رکھتا تمہارے ضرر یا ہدایت پر ۔ فرمایا امام علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے لوگوں کو ولایت علی کی طرف دعوت دی۔ قریش نے جمع ہو کر کہا اے محمد آپ اس سے ہمیں معاف کر دیں۔ حضرت نے فرمایا یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے میری طرف سے نہیں۔ انھوں نے تہمت لگائی اور حضرت کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس پر خدا یہ آیت نازل کی اور فرمایا، تم ان سے یہ بھی کہو اگر میں خدا کی نافرمانی کرو تو مجھے کون پناہ دے گا کوئی بھی نہ دے گا اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ دیکھتا ہوں۔ یعنی میں تو خدا کی طرف سے اس کا پیغام پہنچانے کا ذمہ دار ہوں (سورہ جن) میں نے کہا یہ تنزیل میں ہے۔ فرمایا ہاں، پھر خدا نے تاکیداً یہ بھی فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی (ولایت علی کے بارے میں) کریگا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیگا۔ میں نے کہا جب وہ خدائی وعدہ کو پورا ہوتے دیکھیں گے تو اس وقت جانیں گے کہ بلحاظ نصرت کون کمزور ہے اور بلحاظ تعداد کون کم ہے یعنے یہ وعدہ پورا ہو گا حضرت حجت اور ان کے انصار کے ظہورکے وقت۔
میں نے کہا اس آیت کا کیا مطلب ہے (مزمل) اے رسول ان لوگوں کے کہنے پر صبر کرو۔ فرمایا جو کچھ تمہارے بارے میں کہتے ہیں اور ان کو بعنوان شائستہ اپنے سے الگ رکھو اور (اے محمد) مجھے ان لوگوں سے جو (تمہارے وصی کو) جھٹلاتے ہیں نمٹ لینے دو اور ان کو تھوڑی ملت دے دو۔ میں نے کہا کیا یہ تنزیل ہے۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا سورہ المدثر کی اس آیت کا مطلب کیا ہے، جہنم پر انیس فرشتے معین ہیں اور ہم نے تو جہنم کا نگہبان بس فرشتوں کو بنایا ہے اور ان کا یہ شمار کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ اہل کتاب یقین کر لیں (کیونکہ ان کی کتاب میں ایسا ہی ہے) اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔ امام نے فرمایا تاکہ مومنین یقین کر لیں کہ خدا اور رسول اور رسول کا وصی کا حق ہیں۔ میں نے کہا اس کا کیا مطلب ہے کہ ایمان والوں کا ایمان زیادہ ہو۔ فرمایا ولایت وصی سے ایمان زیادہ ہو گا۔ میں نے کہا اور اس کا کیا مطلب ہے اہلِ کتاب اور ایمان والے شک نہ کریں۔ فرمایا علی کی ولایت میں، میں نے کہا یہ شک کیا ہے۔ فرمایا یہ شک اہل کتاب اور ان مومنوں سے جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے متعلق نہیں کیونکہ ان کی ولایت میں شک نہیں تھا۔ میں نے کہا اس کا کیا مطلب ہے نہیں ہے یہ مگر ان کے لیے نصیحت۔ فرمایا اس سے مراد ولایت علی ہے۔ میں نے کہا اس آیت سے کیا مراد ہے، یہ ایک بہت بڑی ہے، فرمایا اس سے مراد ولایت ہے۔ میں نے کہا اس آیت سے کیا مراد ہے، تم میں سے جو چاہے مقدم ہو یا موخر۔ فرمایا جس نے سبقت کی ہماری ولایت کی طرف وہ روک دیا گیا جہنم سے اور جو پیچھے رہا ہماری ولایت میٰں وہ سب سے پہلے جہنم میں ڈال دیا گیا۔
میں نے پوچھا اصحاب یمین سے کون مراد ہیں۔ فرمایا خدا کی قسم وہ ہمارے شیعہ ہیں۔ میں نے پوچھا ہم نہیں تھے تو مصلحین سے کون مراد ہیں۔ فرمایا وہ لوگ جنھوں نے ولایت کو وصی محمد اور ان کے بعد والے اوصیأ کی ولایت کو تسلیم نہ کیا اور ہم پر صلوٰۃ نہ بھیجی۔ میں نے پوچھا اس سے کیا مراد ہے وہ تذکرہ سے روگردانی کرتے رہے۔ میں نے پوچھا اس سے کیا مراد ہے ، بے شک وہ نصیحت ہے۔ فرمایا ولایت مراد ہے۔ میں نے کہا اس سے کیا مراد ہے وہ نذر کو وفا کرتے ہیں۔ فرمایا نذر سے وہ مراد ہے جو روزِ میثاق ہماری ولایت کے متعلق تھی۔ میں نے کہا اس آیت سے کیا مراد ہے ہم نے تم پر قرآن کو نازل کیا۔ فرمایا اس سے تنزیل ولایت مراد ہے۔ میں نے کہا کیا یہ تنزیل ہے۔ فرمایا ہاں لیکن تاویل یعنی بیان ہے آیات سابقہ کے متعلق۔ میں نے کہا اس آیت سے کیا مراد ہے۔ فرمایا تذکرہ سے مراد ہے ولایت۔ میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا اپنی رحمت میں جسے چاہتا ہے داخل کر لیتا ہے۔ فرمایا اس سے مراد ہے ہماری ولایت اور خدا نے فرمایا اور ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار ہے کیا تم (راوی) نہیں غور کرتے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ انھوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پھر فرمایا اللہ کی شان اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس پر ظلم کیا جائے ظلم کی طرف اس کو نسبت دی جائے لیکن خدا نے اپنے نفس کے ساتھ ہم کو بھی شامل کر لیا ہے۔ اور اس نے ہم پر ظلم ہونے کو اپنے اوپر ظلم قرار دیا ہے اور ہماری ولایت کو اپنی ولایت بتایا ہے پھر اپنے نبی پر قرآن کو نازل کیا اور فرمایا ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنے نفسوں پر خود ظلم کیا۔ میں نے کہا جو آپ نے فرمایا ہے یہ تنزیل ہے۔ فرمایا ہاں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً قَالَ يَعْنِي بِهِ وَلايَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) قُلْتُ وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَعْمى قَالَ يَعْنِي أَعْمَى الْبَصَرِ فِي الاخِرَةِ أَعْمَى الْقَلْبِ فِي الدُّنْيَا عَنْ وَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ وَهُوَ مُتَحَيِّرٌ فِي الْقِيَامَةِ يَقُولُ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيراً قالَ كَذلِكَ أَتَتْكَ آياتُنا فَنَسِيتَها قَالَ الايَاتُ الائِمَّةُ (عَلَيْهم السَّلام) فَنَسِيتَها وَكَذلِكَ الْيَوْمَ تُنْسى يَعْنِي تَرَكْتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُتْرَكُ فِي النَّارِ كَمَا تَرَكْتَ الائِمَّةَ (عليهم السلم) فَلَمْ تُطِعْ أَمْرَهُمْ وَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَهُمْ قُلْتُ وَكَذلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآياتِ رَبِّهِ وَلَعَذابُ الاخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقى قَالَ يَعْنِي مَنْ أَشْرَكَ بِوَلايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) غَيْرَهُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ وَتَرَكَ الائِمَّةَ مُعَانَدَةً فَلَمْ يَتَّبِعْ آثَارَهُمْ وَلَمْ يَتَوَلَّهُمْ قُلْتُ الله لَطِيفٌ بِعِبادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ قَالَ وَلايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) قُلْتُ مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الاخِرَةِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَالائِمَّةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ قَالَ نَزِيدُهُ مِنْهَا قَالَ يَسْتَوْفِي نَصِيبَهُ مِنْ دَوْلَتِهِمْ وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الاخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ قَالَ لَيْسَ لَهُ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ مَعَ الْقَائِمِ نَصِيبٌ۔
میں نے پوچھا کیا مراد ہے اس آیت میں عذاب ہو جھٹلانے والوں پر۔ فرمایا مراد یہ ہے کہ اے محمد ولایت علی کے بارے میں جو تم پر وحی کی ہے اس کے جھٹلانے والوں پر عذاب ہو گا۔ پھر فرماتا ہے کیا ہم نے اولین کو اور ان کے بعد آخرین کو ہلاک نہیں کیا۔ اولین سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اوصیأ کی اطاعت میں مرسلین کو جھٹلایا تھا اور ہم مجرمین کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ پھر حضرت نے فرمایا مجرم سے مراد مجرم آلِ محمد ہیں جنھوں نے آنحضرت کے وصی کے ساتھ کیا جو کیا۔ میں نے پوچھا متقین سے کون مراد ہیں۔ فرمایا ہم اور ہمارے شیعہ، ہمارے علاوہ دوسرے لوگ ملت ابراہیم پر نہیں اور وہ لوگ اس ملت سے الگ ہیں۔
میں نے کہا سورۂ نسأ کی اس آیت کا مطلب کیا ہے ، اس روز روح اور ملائکہ صف بہ صف کھڑے ہوں گے الخ۔ فرمایا امام علیہ السلام نے اس سے مراد یہ ہے کہ روز قیامت ہم کو کلام کرنے کی اجازت ہو گی اور ہم سچ بات کہنے والے ہوں گے۔ میں نے کہا جب آپ کلام کریں گے تو کیا کہیں گے۔ فرمایا ہم خدا کی تحمید و تمجید کریں گے اورر اپنے نبی پر درود بھیجیں گے اور اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے۔ ہمارا رب اس کو رد نہ کریگا۔ میں نے پھر یہ آیت پڑھی۔ کتاب فجار سجین میں ہے۔ فرمایا یہ فجار وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق آئمہ غصب کیا اور ان پر ظلم روا رکھا۔ پھر میں نے یہ آیت پڑھی۔ یہ ہے وہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ فرمایا جسے وہ لوگ جھٹلاتے تھے اس سے مراد امیر المومنین ہیں۔ میں نے کہا کیا یہ تنزیل ہے۔ فرمایا ہاں۔
ابوبصیر نے اس آیت کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا جس نے میرے ذکر سے روگردانی کی تو بے شک اس کی روزی تنگ ہو گئی۔ فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ ولایت امیر المومنین سے روگردانی کی۔ میں نے پوچھا اور اس کا کیا مطلب ہے ہم اس کو قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ فرمایا مراد یہ ہے کہ آخرت میں وہ اندھا محشور ہو گا اور دنیا میں دل کا اندھا بنا رہے گا۔ ولایت علی کو نہ ماننے کی وجہ سے اور قیامت میں وہ متحیر ہو گا اور کہے گا خداوندا تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا۔ خدا کہے گا تو نے ہمارے آیات کو بھلایا تھا۔ فرمایا امام نے وہ آیات آئمہ علیہم السلام ہیں تو نے ان کو چھوڑا ہے آج تو جہنم میں ڈالا جائے گا کیوں کہ تو نے آئمہ کی ولایت کو ترک کیا تھا تو نے ان کے حکم کی اطاعت نہ کی اور ان کی بات کو کان لگا کر سنا نہیں۔
ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں اس کو جو حد سے بڑھے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہ لائے اور عذاب آخرت بہت سخت اور دائمی ہے اوراس نے آئمہ کو ازروئے عداوت ترک کیا۔ ان کے آثار کی پیروی نہ کی اور انھیں دوست نہ رکھا۔ پھر میں نے یہ آیت پڑھی، اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ فرمایا یہ رزق ولایت امیر المومنین ہے میں نے پھر یہ آیت پڑھی، جو کوئی آخرت کے فائدے کو چاہتا ہے۔ فرمایا جو ولایت امیر المومنین حاصل کرتا ہے ہم اس کے فائدے میں زیادتی کر دیتے ہیں۔ یعنی اس کے دینی ثواب کو بڑھا دیتے ہیں اور جو دینی فائدہ چاہتا ہے ہم اسے وہی دیتے ہیں اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یعنی دولت حق میں قائم آل محمد کے ساتھ اسے کوئی حصہ نہ ملے گا۔