مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-113)

ذکر مولد امیر المومنین علیہ السلام

حدیث نمبر 0

وُلِدَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) بَعْدَ عَامِ الْفِيلِ بِثَلاثِينَ سَنَةً وَقُتِلَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِتِسْعٍ بَقِينَ مِنْهُ لَيْلَةَ الاحَدِ سَنَةَ أَرْبَعِينَ مِنَ الْهِجْرَةِ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً بَقِيَ بَعْدَ قَبْضِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثَلاثِينَ سَنَةً وَأُمُّهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَهُوَ أَوَّلُ هَاشِمِيٍّ وَلَدَهُ هَاشِمٌ مَرَّتَيْنِ۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام 30 عام الفیل میں پیدا ہوئے اور قتل ہوئے ماہ رمضان کی 21 تاریخ روز یک شنبہ 40 ہجری میں جبکہ آپ 63 سال کے تھے۔ رسول اللہ کے بعد 30 سال تک زندہ رہے۔ آ پکی والدہ فاطمہ بنت اسد بنی ہاشم بن عبد مناف تھیں وہ سب سے پہلے ہاشمی ہیں جو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہاشمی تھے۔

حدیث نمبر 1

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْفَارِسِيِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ جَاءَتْ إِلَى أَبِي طَالِبٍ لِتُبَشِّرَهُ بِمَوْلِدِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ اصْبِرِي سَبْتاً أُبَشِّرْكِ بِمِثْلِهِ إِلا النُّبُوَّةَ وَقَالَ السَّبْتُ ثَلاثُونَ سَنَةً وَكَانَ بَيْنَ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) ثَلاثُونَ سَنَةً۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ فاطمہ بنت اسد رسولِ خدا کی خوشخبری لے کر حضرت ابو طالب کے پاس آئیں۔ ابوطالب نے کہا صبر کرو ایک سبت میں تم کو خوشخبری دوں گا۔ ایسے ہی مولود کی سوائےمنصب نبوت کے اور فرمایا سبت 30 سال کا ہوتا ہے اور حضرت رسولِ خدا اور امیر المومنین کی عمرمیں تیس سال کا فرق ہے۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنِ السَّيَّارِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ أُمَّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ كَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ هَاجَرَتْ إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ عَلَى قَدَمَيْهَا وَكَانَتْ مِنْ أَبَرِّ النَّاسِ بِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَسَمِعَتْ رَسُولَ الله وَهُوَ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ يُحْشَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُرَاةً كَمَا وُلِدُوا فَقَالَتْ وَا سَوْأَتَاهْ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَإِنِّي أَسْأَلُ الله أَنْ يَبْعَثَكِ كَاسِيَةً وَسَمِعَتْهُ يَذْكُرُ ضَغْطَةَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ وَا ضَعْفَاهْ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَإِنِّي أَسْأَلُ الله أَنْ يَكْفِيَكِ ذَلِكِ وَقَالَتْ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَوْماً إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُعْتِقَ جَارِيَتِي هَذِهِ فَقَالَ لَهَا إِنْ فَعَلْتِ أَعْتَقَ الله بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْواً مِنْكِ مِنَ النَّارِ فَلَمَّا مَرِضَتْ أَوْصَتْ إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَمَرَتْ أَنْ يُعْتِقَ خَادِمَهَا وَاعْتُقِلَ لِسَانُهَا فَجَعَلَتْ تُومِي إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِيمَاءً فَقَبِلَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَصِيَّتَهَا فَبَيْنَمَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ قَاعِدٌ إِذْ أَتَاهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَهُوَ يَبْكِي فَقَالَ لَهُ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مَا يُبْكِيكَ فَقَالَ مَاتَتْ أُمِّي فَاطِمَةُ فَقَالَ رَسُولُ الله وَأُمِّي وَالله وَقَامَ مُسْرِعاً حَتَّى دَخَلَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَبَكَى ثُمَّ أَمَرَ النِّسَاءَ أَنْ يَغْسِلْنَهَا وَقَالَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِذَا فَرَغْتُنَّ فَلا تُحْدِثْنَ شَيْئاً حَتَّى تُعْلِمْنَنِي فَلَمَّا فَرَغْنَ أَعْلَمْنَهُ بِذَلِكَ فَأَعْطَاهُنَّ أَحَدَ قَمِيصَيْهِ الَّذِي يَلِي جَسَدَهُ وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يُكَفِّنَّهَا فِيهِ وَقَالَ لِلْمُسْلِمِينَ إِذَا رَأَيْتُمُونِي قَدْ فَعَلْتُ شَيْئاً لَمْ أَفْعَلْهُ قَبْلَ ذَلِكَ فَسَلُونِي لِمَ فَعَلْتُهُ فَلَمَّا فَرَغْنَ مِنْ غُسْلِهَا وَكَفْنِهَا دَخَلَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَحَمَلَ جَنَازَتَهَا عَلَى عَاتِقِهِ فَلَمْ يَزَلْ تَحْتَ جَنَازَتِهَا حَتَّى أَوْرَدَهَا قَبْرَهَا ثُمَّ وَضَعَهَا وَدَخَلَ الْقَبْرَ فَاضْطَجَعَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ فَأَخَذَهَا عَلَى يَدَيْهِ حَتَّى وَضَعَهَا فِي الْقَبْرِ ثُمَّ انْكَبَّ عَلَيْهَا طَوِيلاً يُنَاجِيهَا وَيَقُولُ لَهَا ابْنُكِ ابْنُكِ [ ابْنُكِ ] ثُمَّ خَرَجَ وَسَوَّى عَلَيْهَا ثُمَّ انْكَبَّ عَلَى قَبْرِهَا فَسَمِعُوهُ يَقُولُ لا إِلَهَ إِلا الله اللهمَّ إِنِّي أَسْتَوْدِعُهَا إِيَّاكَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ لَهُ الْمُسْلِمُونَ إِنَّا رَأَيْنَاكَ فَعَلْتَ أَشْيَاءَ لَمْ تَفْعَلْهَا قَبْلَ الْيَوْمِ فَقَالَ الْيَوْمَ فَقَدْتُ بِرَّ أَبِي طَالِبٍ إِنْ كَانَتْ لَيَكُونُ عِنْدَهَا الشَّيْ‏ءُ فَتُؤْثِرُنِي بِهِ عَلَى نَفْسِهَا وَوَلَدِهَا وَإِنِّي ذَكَرْتُ الْقِيَامَةَ وَأَنَّ النَّاسَ يُحْشَرُونَ عُرَاةً فَقَالَتْ وَا سَوْأَتَاهْ فَضَمِنْتُ لَهَا أَنْ يَبْعَثَهَا الله كَاسِيَةً وَذَكَرْتُ ضَغْطَةَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ وَا ضَعْفَاهْ فَضَمِنْتُ لَهَا أَنْ يَكْفِيَهَا الله ذَلِكَ فَكَفَّنْتُهَا بِقَمِيصِي وَاضْطَجَعْتُ فِي قَبْرِهَا لِذَلِكَ وَانْكَبَبْتُ عَلَيْهَا فَلَقَّنْتُهَا مَا تُسْأَلُ عَنْهُ فَإِنَّهَا سُئِلَتْ عَنْ رَبِّهَا فَقَالَتْ وَسُئِلَتْ عَنْ رَسُولِهَا فَأَجَابَتْ وَسُئِلَتْ عَنْ وَلِيِّهَا وَإِمَامِهَا فَارْتَجَّ عَلَيْهَا فَقُلْتُ ابْنُكِ ابْنُكِ [ ابْنُكِ]

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فاطمہ بنت اسد مادر امیر المومنین وہ پہلی بی بی ہیں جنھوں نے پاپیادہ مکہ سے مدینہ تک رسول کی طرف ہجرت کی اور وہ رسول اللہ پر سب سے زیادہ مہربان تھیں۔ انھوں نے رسولِ خدا سے سنا کہ روز قیامت لوگ اسی طرح برہنہ محشور ہوں گے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا ہائے کیسی رسوائی ہو گی۔ حضرت نے فرمایا میں خدا سے سوال کروں گا کہ وہ تمہیں آسیہ کی طرح قبر سے اٹھائے۔ رسول سے انھوں نے تنگی قبر کا حال سنا تو کہنے لگیں ہائے میری کمزوری۔ حضرت نے فرمایا غم نہ کرو میں اللہ سے سوال کروں گا کہ وہ تمہیں اس سے نجات دے۔ ایک دن رسول اللہ سے کہا میں اپنی اس کنیز کو آزاد کرنا چاہتی ہوں۔ فرمایا خدا اس کے ہر عضو کے بدلے تمہارے ہر عضو کو نار جہنم سے نجات دے گا۔ جب بیمار ہوئیں تو رسول اللہ کو وصیت کی اور حکم دیا کہ ان کے وصی کی حیثیت سے خادمہ کو آزاد کر دیں اتنا کہہ کر زبان بند ہو گئی۔ پھر رسول کو اشارے سے بتاتی رہیں۔ رسول اللہ نے ان کی وصیت کو قبول کیا۔ ایک دن حضرت بیٹھے ہوئے تھے کہ امیر المومنین روتے ہوئے آئے۔ حضرت نے رونے کا سبب پوچھا ۔ فرمایا میری ماں فاطمہ کا انتقال ہو گیا۔ رسول اللہ نے فرمایا ہائے میری ماں کا اور جلدی سے اٹھ کر وہاں پہنچے ۔ ان کو دیکھا تو رونے لگے اور عورتوں کو حکم دیا کہ ان کو غسل دیں اور جب فارغ ہوں تو جب تک حضرت کو آگاہ نہ کریں کچھ نہ کریں۔ جب وہ غسل دے چکیں تو انھوں نے بتایا حضرت نے ان کو اپنی وہ قمیض خاص دی جو آپ کے جسم سے متصل رہتی تھی اور حکم دیا کہ اس کا کفن دیں اور مسلمانوں سے کہا جب تم مجھے کوئی ایسا کام کرتے دیکھو جو اس سے پہلے میں نے نہ کیا ہو تو مجھ سے پوچھوایسا کیوں کیا۔ جب وہ غسل سے فارغ ہوئیں تو حضرت آئے اور جنازہ اپنے کندھے پر اٹھایا۔
آپ برابر جنازہ اٹھائے چلے آ رہے تھے یہاں تک کہ قبر کے پاس لائے اس کو رکھ دیا اور خود قبر میں داخل ہوئے اور اس میں لیٹے پھر میت کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور قبر میں رکھا پھر اس پر جھک کر دیر تک کچھ کہتے رہے۔ پھر فرمایا تمہارا بیٹا، تمہارا بیٹا، تمہارا بیٹا۔ پھر قبر سے نکل آئے اور قبر بند کر دی۔ پھر قبر پر جھکے اور فرمایا لا الہ الا اللہ، خداوندا میں نے ان کو تیرے سپرد کیا پھر لوٹ آئے ۔ مسلمانوں نے کہا آج آپ نے وہ کیا جو اس سے پہلے نہیں کیا تھا۔ فرمایا آج میں نے ابو طالب کی نیکی کو کم کر دیا ہے اگر ان کے پاس کوئی شے ہوتی تھی تو مجھے اپنے اوپر اور اپنی اولاد پر ترجیح دیتی تھیں۔ میں نے ان سے ذکر کیا کہ قیامت کے دن لوگ برہنہ محشورر ہونگے۔ انھوں نے کہا ہائے رسوائی۔ میں ضامن ہوا اس کا کہ خدا ان کو آسیہ کی طرح محشور کرے گا۔ انھوں نے قبر کی تنگی کا ذکر کیا اور کہا ہائے ضعیف ، میں ضامن ہوا اس کا کہ اللہ اس سے بچائے گا۔ پس میں نے ان کو اپنی قمیض کا کفن دیا اور ان کی قبر میں لیٹا اور ان کی قبر پر جھک کر تلقین کی۔ ان سوالات کے جواب کی جو ان سے پوچھے گئے ان سے سوال کیا گیا رب کے متعلق انھوں نے جواب دیا۔ پھر سوال رسول کے متعلق کیا۔ انھوں نے جواب دیا۔ پھر سوال کیا ولی و امام کے متعلق اس پر وہ خاموش ہوئیں۔ میں نے کہا وہ آپ کا بیٹا ہے ، آپ کا بیٹا ہے۔

حدیث نمبر 3

بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ الْكَلْبِيِّ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ لَمَّا وُلِدَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فُتِحَ لآِمِنَةَ بَيَاضُ فَارِسَ وَقُصُورُ الشَّامِ فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدٍ أُمُّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَبِي طَالِبٍ ضَاحِكَةً مُسْتَبْشِرَةً فَأَعْلَمَتْهُ مَا قَالَتْ آمِنَةُ فَقَالَ لَهَا أَبُو طَالِبٍ وَتَتَعَجَّبِينَ مِنْ هَذَا إِنَّكِ تَحْبَلِينَ وَتَلِدِينَ بِوَصِيِّهِ وَوَزِيرِهِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ جب رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے تو حضرت آمنہ کو نظر آنے لگے ایران اور شام کے محلات۔ فاطمہ بنت اسد والدہ امیر المومنین ابو طالب کے پاس آئیں ہنستی ہوئی اور بشارت دیتی ہوئی اور جو کچھ آمنہ سے سنا تھا اس کو بیان کیا۔ ابوطالب نے ان سے کہا تم اس سے تعجب کرتی ہو تم حاملہ ہو اور پیدا ہو گا تم سے ان کا وصی اور وزیر۔

حدیث نمبر 4

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ زَيْدٍ النَّيْسَابُورِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهَاشِمِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَسِيدِ بْنِ صَفْوَانَ صَاحِبِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) ارْتَجَّ الْمَوْضِعُ بِالْبُكَاءِ وَدَهِشَ النَّاسُ كَيَوْمَ قُبِضَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَجَاءَ رَجُلٌ بَاكِياً وَهُوَ مُسْرِعٌ مُسْتَرْجِعٌ وَهُوَ يَقُولُ الْيَوْمَ انْقَطَعَتْ خِلافَةُ النُّبُوَّةِ حَتَّى وَقَفَ عَلَى بَابِ الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ رَحِمَكَ الله يَا أَبَا الْحَسَنِ كُنْتَ أَوَّلَ الْقَوْمِ إِسْلاماً وَأَخْلَصَهُمْ إِيمَاناً وَأَشَدَّهُمْ يَقِيناً وَأَخْوَفَهُمْ لله وَأَعْظَمَهُمْ عَنَاءً وَأَحْوَطَهُمْ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَآمَنَهُمْ عَلَى أَصْحَابِهِ وَأَفْضَلَهُمْ مَنَاقِبَ وَأَكْرَمَهُمْ سَوَابِقَ وَأَرْفَعَهُمْ دَرَجَةً وَأَقْرَبَهُمْ مِنْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَشْبَهَهُمْ بِهِ هَدْياً وَخَلْقاً وَسَمْتاً وَفِعْلاً وَأَشْرَفَهُمْ مَنْزِلَةً وَأَكْرَمَهُمْ عَلَيْهِ فَجَزَاكَ الله عَنِ الاسْلامِ وَعَنْ رَسُولِهِ وَعَنِ الْمُسْلِمِينَ خَيْراً قَوِيتَ حِينَ ضَعُفَ أَصْحَابُهُ وَبَرَزْتَ حِينَ اسْتَكَانُوا وَنَهَضْتَ حِينَ وَهَنُوا وَلَزِمْتَ مِنْهَاجَ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِذْ هَمَّ أَصْحَابُهُ وَكُنْتَ خَلِيفَتَهُ حَقّاً لَمْ تُنَازَعْ وَلَمْ تَضْرَعْ بِرَغْمِ الْمُنَافِقِينَ وَغَيْظِ الْكَافِرِينَ وَكُرْهِ الْحَاسِدِينَ وَصِغَرِ الْفَاسِقِينَ فَقُمْتَ بِالامْرِ حِينَ فَشِلُوا وَنَطَقْتَ حِينَ تَتَعْتَعُوا وَمَضَيْتَ بِنُورِ الله إِذْ وَقَفُوا فَاتَّبَعُوكَ فَهُدُوا وَكُنْتَ أَخْفَضَهُمْ صَوْتاً وَأَعْلاهُمْ قُنُوتاً وَأَقَلَّهُمْ كَلاماً وَأَصْوَبَهُمْ نُطْقاً وَأَكْبَرَهُمْ رَأْياً وَأَشْجَعَهُمْ قَلْباً وَأَشَدَّهُمْ يَقِيناً وَأَحْسَنَهُمْ عَمَلاً وَأَعْرَفَهُمْ بِالامُورِ كُنْتَ وَالله يَعْسُوباً لِلدِّينِ أَوَّلاً وَآخِراً الاوَّلَ حِينَ تَفَرَّقَ النَّاسُ وَالاخِرَ حِينَ فَشِلُوا كُنْتَ لِلْمُؤْمِنِينَ أَباً رَحِيماً إِذْ صَارُوا عَلَيْكَ عِيَالاً فَحَمَلْتَ أَثْقَالَ مَا عَنْهُ ضَعُفُوا وَحَفِظْتَ مَا أَضَاعُوا وَرَعَيْتَ مَا أَهْمَلُوا وَشَمَّرْتَ إِذَا اجْتَمَعُوا وَعَلَوْتَ إِذْ هَلِعُوا وَصَبَرْتَ إِذْ أَسْرَعُوا وَأَدْرَكْتَ أَوْتَارَ مَا طَلَبُوا وَنَالُوا بِكَ مَا لَمْ يَحْتَسِبُوا كُنْتَ عَلَى الْكَافِرِينَ عَذَاباً صَبّاً وَنَهْباً وَلِلْمُؤْمِنِينَ عَمَداً وَحِصْناً فَطِرْتَ وَالله بِنَعْمَائِهَا وَفُزْتَ بِحِبَائِهَا وَأَحْرَزْتَ سَوَابِغَهَا وَذَهَبْتَ بِفَضَائِلِهَا لَمْ تُفْلَلْ حُجَّتُكَ وَلَمْ يَزِغْ قَلْبُكَ وَلَمْ تَضْعُفْ بَصِيرَتُكَ وَلَمْ تَجْبُنْ نَفْسُكَ وَلَمْ تَخِرَّ كُنْتَ كَالْجَبَلِ لا تُحَرِّكُهُ الْعَوَاصِفُ وَكُنْتَ كَمَا قَالَ (عَلَيْهِ السَّلام) آمَنَ النَّاسِ فِي صُحْبَتِكَ وَذَاتِ يَدِكَ وَكُنْتَ كَمَا قَالَ (عَلَيْهِ السَّلام) ضَعِيفاً فِي بَدَنِكَ قَوِيّاً فِي أَمْرِ الله مُتَوَاضِعاً فِي نَفْسِكَ عَظِيماً عِنْدَ الله كَبِيراً فِي الارْضِ جَلِيلاً عِنْدَ الْمُؤْمِنِينَ لَمْ يَكُنْ لاحَدٍ فِيكَ مَهْمَزٌ وَلا لِقَائِلٍ فِيكَ مَغْمَزٌ [ وَلا لاحَدٍ فِيكَ مَطْمَعٌ ] وَلا لاحَدٍ عِنْدَكَ هَوَادَةٌ الضَّعِيفُ الذَّلِيلُ عِنْدَكَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ حَتَّى تَأْخُذَ لَهُ بِحَقِّهِ وَالْقَوِيُّ الْعَزِيزُ عِنْدَكَ ضَعِيفٌ ذَلِيلٌ حَتَّى تَأْخُذَ مِنْهُ الْحَقَّ وَالْقَرِيبُ وَالْبَعِيدُ عِنْدَكَ فِي ذَلِكَ سَوَاءٌ شَأْنُكَ الْحَقُّ وَالصِّدْقُ وَالرِّفْقُ وَقَوْلُكَ حُكْمٌ وَحَتْمٌ وَأَمْرُكَ حِلْمٌ وَحَزْمٌ وَرَأْيُكَ عِلْمٌ وَعَزْمٌ فِيمَا فَعَلْتَ وَقَدْ نَهَجَ السَّبِيلُ وَسَهُلَ الْعَسِيرُ وَأُطْفِئَتِ النِّيرَانُ وَاعْتَدَلَ بِكَ الدِّينُ وَقَوِيَ بِكَ الاسْلامُ فَظَهَرَ أَمْرُ الله وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ وَثَبَتَ بِكَ الاسْلامُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَبَقْتَ سَبْقاً بَعِيداً وَأَتْعَبْتَ مَنْ بَعْدَكَ تَعَباً شَدِيداً فَجَلَلْتَ عَنِ الْبُكَاءِ وَعَظُمَتْ رَزِيَّتُكَ فِي السَّمَاءِ وَهَدَّتْ مُصِيبَتُكَ الانَامَ فَإِنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ رَضِينَا عَنِ الله قَضَاهُ وَسَلَّمْنَا لله أَمْرَهُ فَوَ الله لَنْ يُصَابَ الْمُسْلِمُونَ بِمِثْلِكَ أَبَداً كُنْتَ لِلْمُؤْمِنِينَ كَهْفاً وَحِصْناً وَقُنَّةً رَاسِياً وَعَلَى الْكَافِرِينَ غِلْظَةً وَغَيْظاً فَأَلْحَقَكَ الله بِنَبِيِّهِ وَلا أَحْرَمَنَا أَجْرَكَ وَلا أَضَلَّنَا بَعْدَكَ وَسَكَتَ الْقَوْمُ حَتَّى انْقَضَى كَلامُهُ وَبَكَى وَبَكَى أَصْحَابُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثُمَّ طَلَبُوهُ فَلَمْ يُصَادِفُوهُ۔

صفوان صحابیِ رسول نے بیان کیا کہ جس روز امیر المومنین کا انتقال ہوا وہ مقام فرطِ گریہ سے ہلنے لگا۔ اور لوگ اسی طرح پریشان تھے جیسے رسول اللہ کی وفات کے دن، ناگاہ ایک شخص روتا ہوا آیا اور جلدی سے آیا اور انا للہ و انا الیہ راجعون کہتا ہوا آیا پھر کہنے لگا آج خلافتِ نبویہ قطع ہو گئی پھر وہ اس گھر کے دروازے پر کھڑا ہوا جہاں امیر المومنین تھے اور کہنے لگا اے ابو الحسن اللہ آپ پر رحم کرے آپ سب سے پہلے اسلام لانے والے اور ان میں سب سے زیادہ پر خلوص ایمان والے اور یقین میں سب سے زیادہ خدا خدا سے ڈرنے والے اور بزرگ تر اور روئے تحمل و تعب اور رسول اللہ کے سب سے زیادہ حفاظت کرنے والےے اور تمام اصحاب میں سب سے زیادہ امین اور از روئے مناقب افضل اور سبقت الی الخیر میں سب سے زیادہ اکرم۔
اور ازروئے درجہ سب سے اعلیٰ اور ازروئے قرابتِ رسول سب سے زیادہ نزدیک اور طریقہ کار میں اور عادات وخصائل اور عمل میں سب سے زیادہ مشابہ اور منزلت میں شریف تر اور بزرگ تر اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے اور رسول اور مسلمانوں کی طرف سے بھی جزائے خیر ہو۔ جب اصحاب نے کمزوری دکھائی تو آپ قوی رہے اور جب ان میں سستی آئی تو آپ چست رہے جب وہ ڈھیلے پڑے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور جب اصحاب نے طریقہ رسول کو ترک کیا تو آپ اس پر قائم رہے۔
آپ رسول کے خلیفہ برحق ہیں آپ نے (مصلحت دینی پر نظر رکھتے ہوئے) امرِ خلافت میں نزاع نہ کیا اور باوجود منافقوں کی خواہش کے اور کافروں کے غیظ و غضب ، حاسدوں کی ناپسندیدگی اور فاسقوں کی حقارت کے آپ نے عاجزی اور فروتنی کا اظہار نہ کیا۔ جب لوگ امر دین کی بجا آوری میں سست پڑ گئے تھے آپ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کھڑے ہو گئے جب کہ دوسروں نے پردہ پوشی کی تو آپ نور خدا کی روشنی میں چلے، جب کہ اور لوگ اپنی جگہ سے ہلتے نہ تھے جنھوں نے آپ کا اتباع کیا۔ انھوں نے ہدایت پائی، آپ مجلس رسول میں سب سے دھیمی آواز میں بولتے تھے اور ازروئے اطاعتِ رسول سب سے زیادہ بلند درجہ پر تھے اور کم کلام کرنے والے تھے اور سب سے زیادہ درست بولنے والے تھے اور بہترین رائے والے تھے اور ازروئے قلب سب سے زیادہ بہادر تھے اور ازروئے یقین سب سے زیادہ مضبوط اور عملاً سب سے زیادہ بہتر، امور دین کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ واللہ آپ دین کے یعسوب (سردار) تھے اول بھی آخر بھی، اول اس وقت جب لوگوں میں تفرقہ پڑ گیا اور آخر اس وقت جب کہ لوگوں کے پائے عمل سست پڑ گئے تھے۔
آپ مومنوں کے لیے مہربان باپ تھے جب کہ وہ آپ کے لیے مثل عیال بن گئے آپ نے ان کے اس بوجھ کو اٹھا لیا جس کے اٹھانے میں وہ کمزور ثابت ہو چکے تھے اور جو چیزیں مومنین چھوڑ بیٹھے تھے۔ آپ نے ان کی حفاظت کی اور نگاہ رکھا ان امور کو جو انھوں نے مہمل بنا دیئے تھے اور روکا مومنین کو جب وہ جمع ہوئے (ْقتل عثمان پر) اور آپ بلند طبع رہے جب کہ انھوں نے جزع کی اور صبر سے کام لیا۔ جب کہ انھوں نے جلدی کی (قبول خلافت میں) اور معلوم کر لیا ان کینوں کو جو (اہل شام) رکھتے تھے اور مومنوں نے پا لیا آپ سے ان چیزوں کو جن کا انھیں گمان بھی نہ تھا۔ آپ کافروں کے لیے ایک سخت عذاب تھے اور مومنوں کے لیے محفوظ قلعہ آپ نے آئمہ ضلالت کی نعمتوں کو خاک میں ملا دیا اور امامت کی بخششوں کو کامیاب بنا دیا اور حاصل کیا ان چیزوں کو جن کی طرف سبقت کرتے ہیں اور فضائلِ امامت کو برقرار رکھا۔ اور آپ کی دلیلِ امامت میں کوئی کمی نہ ہوئی اور آپ کی بصیرت میں کمزوری پیدا نہ ہوئی اور دشمن کے مقابل نفس کو گرنے نہ دیا۔ آپ مثل اس پہاڑ کے تھے جس کو سخت سے سخت آندھی جگہ سے نہیں ہٹا سکتی۔ آپ ہی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنی صحبت میں اور جو کچھ آپ کے ہاتھ میں تھا اس میں لوگوں کے امین تھے اور رسول نے فرمایا اگرچہ جسمانی لحاظ سے کمزور تھے۔ مگر امر خدا میں قوی تھے اپنی ذات میں فروتنی کرنے والے تھے لیکن پیشِ خدا بڑے مرتبہ والے روئے زمین پر مومنین کے لیے جلیل القدر کوئی آپ کی ذات میں عیب نہیں لگا سکتا تھا اور نہ آپ کے بارے میں غمازی کر سکتا تھا اور نہ گناہ کی آپ سے طمع رکھ سکتا تھا اور نہ کوئی چاپلوسی کر سکتا تھا۔
اور ضعیف و ذلیل آپ کے نزدیک قوی و عزیز رہے آپ قوی سے اس کا حق لینے والے ہیں اور قوی و عزیز آپ کے نزدیک ضعیف و ذلیل ہے۔ آپ کمزور کا حق اس سے دلانے والے ہیں اس معاملے میں عزیز وغیرہ دونوں آپ کے لیے برابر ہیں آپ کی شان حق و صدق اور نرمی ہے آپ کا قول حکم صحیح اور حتمی ہے آپ کا امر حلم اور حزم کے ساتھ ہے جو کچھ آپ کریں۔ آپ صحیح راستہ پر چلنے والے ہیں اور ہر مشکل کام آپ کے لیے آسان ہے۔ آپ نے فتنہ کی آگ بجھائی اور امورِ دین کو اعتدالی حالت پر رکھا آپ کی وجہ سے اسلام قوی ہوا اور باوجود کافروں کی ناپسندیدگی کے امر خدا ظاہر ہوا اور اسلام اور مومنین اپنی جگہ پر قائم رہے اور آپ نے بہت نمایاں سبقت حاصل کی اور آپ کے بعد آپ کے دوستوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے اور آپ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ صرف رونےپر اکتفا کی جائے آپ کی موت سے نہ صرف زمین والے بلکہ اہل آسمان بھی اندوہناک ہیں اور آپ کی موت نے لوگوں کو بری طرح شکستہ دل کیا ہے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہم اللہ کی قضا و قدر پر راضی ہیں اور ہم نے اس امرر کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ خدا کی قسم آپ کی موت سے زیادہ کوئی مصیبت مسلمانوں پر نہیں آئی۔ آپ مومنوں کے لیے جائے پناہ اور مضبوط قلعہ تھے اور ایک مضبوط آزمائش تھے اور کافروں کے لیے سختی اور غضب۔ خدا نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلا لیا اور خدا ہم کو آپ کی مصیبت پر رونے کے اجر سے محروم نہ کرے۔ جب اس کا کلام ختم ہوا تو وہ رو دیا اور تمام اصحابِ رسول روئے اس کے بعد لوگوں نے اسے بہت تلاش کیا مگر پتہ ہی نہ چلا۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَعَامِرٌ وَعَبْدُ الله بْنُ جُذَاعَةَ الازْدِيُّ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ فَقَالَ لَهُ عَامِرٌ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) دُفِنَ بِالرَّحْبَةِ قَالَ لا قَالَ فَأَيْنَ دُفِنَ قَالَ إِنَّهُ لَمَّا مَاتَ احْتَمَلَهُ الْحَسَنُ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَتَى بِهِ ظَهْرَ الْكُوفَةِ قَرِيباً مِنَ النَّجَفِ يَسْرَةً عَنِ الْغَرِيِّ يَمْنَةً عَنِ الْحِيرَةِ فَدَفَنَهُ بَيْنَ رَكَوَاتٍ بِيضٍ قَالَ فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَوْضِعِ فَتَوَهَّمْتُ مَوْضِعاً مِنْهُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ لِي أَصَبْتَ رَحِمَكَ الله ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔

راوی کہتا ہے کہ عامر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ امیر المومنین مقام رحبہ (کوفہ کا ایک محلہ) میں دفن کیے گئے ہیں۔ فرمایا نہیں۔ اس نے کہا پھر کہاں۔ فرمایا جب حضرت کا انتقال ہوا تو امام حسن جنازہ لے کر کوفہ کے بلند مقام پر آئے جو نجف (دریا کا کنارہ) کے قریب تھا غری کے بائیں طرف اور چہرہ داہنی طرف تھا۔ پس دفن کیا سفید پاک پتھروں کے درمیان ۔ اس گفتگو کے بعد عامر کہتا ہے میں اس جگہ گیا اور جو نشان بنایا تھا اس سے پتہ لگا لیا۔ جب حضرت کے پاس آیا تو حال بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا تم ٹھیک پہنچے اللہ تم پر رحم کرے۔ تین بار فرمایا۔

حدیث نمبر 6

أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ أَتَانِي عُمَرُ بْنُ يَزِيدَ فَقَالَ لِي ارْكَبْ فَرَكِبْتُ مَعَهُ فَمَضَيْنَا حَتَّى أَتَيْنَا مَنْزِلَ حَفْصٍ الْكُنَاسِيِّ فَاسْتَخْرَجْتُهُ فَرَكِبَ مَعَنَا ثُمَّ مَضَيْنَا حَتَّى أَتَيْنَا الْغَرِيَّ فَانْتَهَيْنَا إِلَى قَبْرٍ فَقَالَ انْزِلُوا هَذَا قَبْرُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقُلْنَا مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ فَقَالَ أَتَيْتُهُ مَعَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) حَيْثُ كَانَ بِالْحِيرَةِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَخَبَّرَنِي أَنَّهُ قَبْرُهُ۔

عبداللہ بن سنان سے مروی ہے کہ میرے پاس عمر بن یزید آیا اور مجھ سے کہا سوار ہو جاؤ۔ میں سوار ہو کر اس کے ساتھ چلا۔ ہم حفص کناسی کے مکان پر آئے۔ میں نے اس سے ساتھ چلنے کی خواہش کی۔ وہ ہمارے ساتھ چلا۔ جب ہم مقام غزی تک پہنچے تو ایک قبرکے پاس جا کر رکے۔ اس نے کہا سواری سے اترو۔ یہ قبر امیر المومنین ہے۔ ہم نے کہا تم نے کیسے جانا۔ اس نے کہا جب حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام حیرہ میں مقیم تھے تو میں کئی بار یہاں آیا اور حضرت نے مجھے بتایا کہ یہ قبر امیر المومنین ہے۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عِيسَى شَلَقَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) لَهُ خُئُولَةٌ فِي بَنِي مَخْزُومٍ وَإِنَّ شَابّاً مِنْهُمْ أَتَاهُ فَقَالَ يَا خَالِي إِنَّ أَخِي مَاتَ وَقَدْ حَزِنْتُ عَلَيْهِ حُزْناً شَدِيداً قَالَ فَقَالَ لَهُ تَشْتَهِي أَنْ تَرَاهُ قَالَ بَلَى قَالَ فَأَرِنِي قَبْرَهُ قَالَ فَخَرَجَ وَمَعَهُ بُرْدَةُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مُتَّزِراً بِهَا فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى الْقَبْرِ تَلَمْلَمَتْ شَفَتَاهُ ثُمَّ رَكَضَهُ بِرِجْلِهِ فَخَرَجَ مِنْ قَبْرِهِ وَهُوَ يَقُولُ بِلِسَانِ الْفُرْسِ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) أَ لَمْ تَمُتْ وَأَنْتَ رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ بَلَى وَلَكِنَّا مِتْنَا عَلَى سُنَّةِ فُلانٍ وَفُلانٍ فَانْقَلَبَتْ أَلْسِنَتُنَا۔

عیسیٰ بن شلقان راوی ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ سے سنا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے کچھ ماموں بنی مخزوم میں تھے ان کا ایک جوان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا بھائی مر گیا ہے اور اس کی موت نے مجھے سخت صدمہ پہنچایا ہے۔ آپ نے فرمایا تم اسے دیکھنا چاہتے ہو اس نے کہا بے شک۔ فرمایا مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ پھر حضرت چلے اور چادر رسول لپیٹے ہوئے تھے ۔ جب قبر کے پاس پہنچے تو آپ نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی اور قبر پر ٹھوکر ماری۔ ایک شخص قبر سے نکلا اور بزبان فارسی گویا ہوا۔ حضرت نے فرمایا کیا تم مرتے وقت عرب نہ تھے۔ اس نے کہا تھا تو لیکن جب ہم مرے تو فلاں فلاں کے مذہب پر تھے پس ہماری زبانیں بدل گئیں۔

حدیث نمبر 8

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا قُبِضَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) قَامَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَحَمِدَ الله وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ قُبِضَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ رَجُلٌ مَا سَبَقَهُ الاوَّلُونَ وَلا يُدْرِكُهُ الاخِرُونَ إِنَّهُ كَانَ لَصَاحِبَ رَايَةِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) عَنْ يَمِينِهِ جَبْرَئِيلُ وَعَنْ يَسَارِهِ مِيكَائِيلُ لا يَنْثَنِي حَتَّى يَفْتَحَ الله لَهُ وَالله مَا تَرَكَ بَيْضَاءَ وَلا حَمْرَاءَ إِلا سَبْعَمِائَةِ دِرْهَمٍ فَضَلَتْ عَنْ عَطَائِهِ أَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَ بِهَا خَادِماً لاهْلِهِ وَالله لَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي فِيهَا قُبِضَ وَصِيُّ مُوسَى يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَاللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاللَّيْلَةِ الَّتِي نُزِّلَ فِيهَا الْقُرْآنُ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جب امیر المومنین علیہ السلام کا انتقال ہو گیا تو امام حسن علیہ السلام مسجد کوفہ میں آئے اور خدا کی حمد و ثنا اور نبی پر درود کے بعد فرمایا ، لوگو اس رات کو اس شخص نے رحلت کی جس کے فضائل کو نہ اولین نے پایا نہ آخرین نے، وہ صاحب رایتِ رسول تھے ان کے داہنی طرف جبرئیل رہتے تھے اور بائیں طرف میکائیل، جب تک فتح نہ ہوتی وہ میدان سے نہ ہٹتے۔ خدا کی قسم انھوں نے نہ چاندی چھوڑی نہ سونا، سوائے ان ستر درہم کے جو انھوں نے اس لیے بچا رکھے تھے کہ اپنے گھر کے لیے ایک کنیز خریدیں۔ واللہ امیر المومنین کا انتقال اسی رات میں ہوا جس رات کو وصی موسیٰ یوشع بن نون کا ہوا تھا اور یہی وہ رات تھی کہ جس میں حضرت عیسیٰ کا رفع ہوا اور یہی وہ رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔

حدیث نمبر 9

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) لَمَّا غُسِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) نُودُوا مِنْ جَانِبِ الْبَيْتِ إِنْ أَخَذْتُمْ مُقَدَّمَ السَّرِيرِ كُفِيتُمْ مُؤَخَّرَهُ وَإِنْ أَخَذْتُمْ مُؤَخَّرَهُ كُفِيتُمْ مُقَدَّمَهُ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب امیر المومنین علیہ السلام کو غسل دیا گیا تو گھر کے ایک طرف سے آواز آئی کہ اگر تم مقدم جنازہ کو لو گے تو موخر جنازہ خود اٹھ جائے گا اور اگر موخر جنازہ کو لو گے تو مقدم جنازہ خود چلے گا۔

حدیث نمبر 10

عَبْدُ الله بْنُ جَعْفَرٍ وَسَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ حَبِيبٍ السِّجِسْتَانِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ وُلِدَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بَعْدَ مَبْعَثِ رَسُولِ الله بِخَمْسِ سِنِينَ وَتُوُفِّيَتْ وَلَهَا ثَمَانَ عَشْرَةَ سَنَةً وَخَمْسَةٌ وَسَبْعُونَ يَوْماً۔

میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ فاطمہ بنت محمد بعثتِ رسول کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں اور اٹھارہ سال پچھتر دن کی عمر میں وفات پائی۔

حدیث نمبر 11

سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَبْدِ الله بُكَيْرٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ لَمَّا قُبِضَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) أَخْرَجَهُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَرَجُلانِ آخَرَانِ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنَ الْكُوفَةِ تَرَكُوهَا عَنْ أَيْمَانِهِمْ ثُمَّ أَخَذُوا فِي الْجَبَّانَةِ حَتَّى مَرُّوا بِهِ إِلَى الْغَرِيِّ فَدَفَنُوهُ وَسَوَّوْا قَبْرَهُ فَانْصَرَفُوا۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب امیر المومنین علیہ السلام کا انتقال ہوا تو امام حسن ، امام حسین اور دو شخص (ملائکہ) جنازہ لے کر نکلے تو چلتے ہوئے کوفہ کے داہنی طرف چھوڑا ۔ پھر زمینِ بلند کی طرف آئے اور مقام غری تک پہنچے۔ یہاں دفن کر کے واپس آئے۔