مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-111)

ابواب التاریخ، بیان مولد النبی ﷺ و وفات آنحضرت ﷺ

حدیث نمبر 0

وُلِدَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) لاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الاوَّلِ فِي عَامِ الْفِيلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مَعَ الزَّوَالِ وَرُوِيَ أَيْضاً عِنْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ بِأَرْبَعِينَ سَنَةً وَحَمَلَتْ بِهِ أُمُّهُ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْوُسْطَى وَكَانَتْ فِي مَنْزِلِ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَوَلَدَتْهُ فِي شِعْبِ أَبِي طَالِبٍ فِي دَارِ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ فِي الزَّاوِيَةِ الْقُصْوَى عَنْ يَسَارِكَ وَأَنْتَ دَاخِلُ الدَّارِ وَقَدْ أَخْرَجَتِ الْخَيْزُرَانُ ذَلِكَ الْبَيْتَ فَصَيَّرَتْهُ مَسْجِداً يُصَلِّي النَّاسُ فِيهِ وَبَقِيَ بِمَكَّةَ بَعْدَ مَبْعَثِهِ ثَلاثَ عَشْرَةَ سَنَةً ثُمَّ هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَمَكَثَ بِهَا عَشْرَ سِنِينَ ثُمَّ قُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) لاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً مَضَتْ مِنْ رَبِيعٍ الاوَّلِ يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً وَتُوُفِّيَ أَبُوهُ عَبْدُ الله بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِالْمَدِينَةِ عِنْدَ أَخْوَالِهِ وَهُوَ ابْنُ شَهْرَيْنِ وَمَاتَتْ أُمُّهُ آمِنَةُ بِنْتُ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ زُهْرَةَ بْنِ كِلابِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيِّ بْنِ غَالِبٍ وَهُوَ (عَلَيْهِ السَّلام) ابْنُ أَرْبَعِ سِنِينَ وَمَاتَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ وَلِلنَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) نَحْوُ ثَمَانِ سِنِينَ وَتَزَوَّجَ خَدِيجَةَ وَهُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ (عَلَيْهِ السَّلام) الْقَاسِمُ وَرُقَيَّةُ وَزَيْنَبُ وَأُمُّ كُلْثُومٍ وَوُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّيِّبُ وَالطَّاهِرُ وَفَاطِمَةُ (عليها السلام) وَرُوِيَ أَيْضاً أَنَّهُ لَمْ يُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلا فَاطِمَةُ (عليها السلام) وَأَنَّ الطَّيِّبَ وَالطَّاهِرَ وُلِدَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ وَمَاتَتْ خَدِيجَةُ (عليها السلام) حِينَ خَرَجَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مِنَ الشِّعْبِ وَكَانَ ذَلِكَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِسَنَةٍ وَمَاتَ أَبُو طَالِبٍ بَعْدَ مَوْتِ خَدِيجَةَ بِسَنَةٍ فَلَمَّا فَقَدَهُمَا رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) شَنَأَ الْمُقَامَ بِمَكَّةَ وَدَخَلَهُ حُزْنٌ شَدِيدٌ وَشَكَا ذَلِكَ إِلَى جَبْرَئِيلَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَوْحَى الله تَعَالَى إِلَيْهِ اخْرُجْ مِنَ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا فَلَيْسَ لَكَ بِمَكَّةَ نَاصِرٌ بَعْدَ أَبِي طَالِبٍ وَأَمَرَهُ بِالْهِجْرَةِ۔

آنحضرت کی ولادت عام الفیل میں (جس سال ابرہہ مع ساتھیوں کے فوج کے کعبہ کو منہدم کرنے کے ارادہ سے آیا تھا۔ ) 12 ربیع الاول روز جمعہ وقت زوال ہوئی اور ایک روایت میں طلوع فجر کے وقت بعثت سے چالیس سال قبل اور ایام تشریق میں آپ کا حمل جمرۂ وسطیٰ کے قریب خانۂ عبداللہ بن عبدالمطلب میں قرار پایا اور ولایت ہوئی شعب ابو طالب کے اندر محمد بن یوسف کے گھر کے اس حسنہ آخر میں جو داخل ہونے والے کے بائیں طرف پڑتا ہے خیرزان مادر خلییفہ مہدی عباسی نے اسے خرید کر مسجد بنا دیا جس میں لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ اور آپ کے والد حضرت عبداللہ نے مدینہ میں اپنے ماموؤں کے پاس انتقال کیا جبکہ آپ صرف دو ماہ کے تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ نے اس وقت انتقال کیا جبکہ آپ چار سال کے تھے اور حضرت عبدالمطلب کے انتقال کے وقت آپ کی عمر صرف آٹھ سال تھی اور حضرت خدیجہ سے آپ نے شادی کی تو آپ کی عمر 20 سال چند ماہ تھی (مشہور روایت کے مطابق 25 سال ہے) اور بعثت سے قبل بطن جناب خدیجہ سے قاسم و رقیہ و زینب و ام کلثوم پیدا ہوئے (یہ روایت بھی ضعیف ہے) یہ تینوں لڑکیاں حضرت کی پروردہ تھیں ہالہ خواہر خدیجہ کے بطن سے تھیں (یہ روایت تقیہ میں لکھی گئی ہے) اور بعد بعثت بطن خدیجہ سے طیب و طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں اور طیب و طاہر قبل بعثت پیدا ہوئے تھے اور جناب خدیجہ کا انتقال آنحضرت کے شعب سے نکلنے کے بعد ہوا اور یہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے اور ابو طالب کا انتقال وفات خدیجہ سے ایک سال بعد ہوا۔ ان دونوں کے انتقال کے بعد مکہ میں رہنا حضرت پر شاق ہوا اور بے حد حزن و ملال ہوا۔ جبرئیل سے شکایت کی۔ خدا نے وحی کی کہ اس قریہ سے جس کے باشندے ظالم ہیں نکل جاؤ۔ ابو طالب کے بعد مکہ میں تمہارا کوئی ناصر نہیں اور ہجرت کا حکم دیا۔

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَخِي حَمَّادٍ الْكَاتِبِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الله قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) كَانَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) سَيِّدَ وُلْدِ آدَمَ فَقَالَ كَانَ وَالله سَيِّدَ مَنْ خَلَقَ الله وَمَا بَرَأَ الله بَرِيَّةً خَيْراً مِنْ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه)۔

راوی نے پوچھا کیا رسول اللہ سردار اولاد آدم تھے۔ فرمایا وہ تمام مخلوقِ الہٰی کے سردار تھے۔ خدا نے محمد سے بہتر کوئی مخلوق پیدا نہیں کی۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَجَّالِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) وَذَكَرَ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) مَا بَرَأَ الله نَسَمَةً خَيْراً مِنْ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه)۔

فرمایا امیر المومنین علیہ السلام نے خدا نے کسی چیز کو محمد سے بہتر پیدا نہیں کیا۔

حدیث نمبر 3

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ مُرَازِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام )قَالَ قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا مُحَمَّدُ إِنِّي خَلَقْتُكَ وَعَلِيّاً نُوراً يَعْنِي رُوحاً بِلا بَدَنٍ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ سَمَاوَاتِي وَأَرْضِي وَعَرْشِي وَبَحْرِي فَلَمْ تَزَلْ تُهَلِّلُنِي وَتُمَجِّدُنِي ثُمَّ جَمَعْتُ رُوحَيْكُمَا فَجَعَلْتُهُمَا وَاحِدَةً فَكَانَتْ تُمَجِّدُنِي وَتُقَدِّسُنِي وَتُهَلِّلُنِي ثُمَّ قَسَمْتُهَا ثِنْتَيْنِ وَقَسَمْتُ الثِّنْتَيْنِ ثِنْتَيْنِ فَصَارَتْ أَرْبَعَةً مُحَمَّدٌ وَاحِدٌ وَعَلِيٌّ وَاحِدٌ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثِنْتَانِ ثُمَّ خَلَقَ الله فَاطِمَةَ مِنْ نُورٍ ابْتَدَأَهَا رُوحاً بِلا بَدَنٍ ثُمَّ مَسَحَنَا بِيَمِينِهِ فَأَفْضَى نُورَهُ فِينَا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (حدیث قدسی) اے محمد میں نے تم کو اور علی کو ایک نور سے پیدا کیا۔ یعنی روح بلا بدن کے آسمانوں، زمین، عرش اور دریا پیدا کرنے سے پہلے۔ پس تم میری تسبیح اور تحلیل کرتے رہے پھر میں نے تم دونوں کے روحوں کا جمع کیا اور تم دونوں کو ایک کر دیا۔ تم اس حالت میں بھی میری تمحید اور تقدیس کرتے رہے پھر میں نے تم کو دو بنایا اور دونوں کے پھر دو حصے کیے پس چار ہو گئے۔ ایک محمد، ایک علی اور دو حسن و حسین۔ امام نے فرمایا اللہ نے فاطمہ کو پیدا کیا اسی ابتدائی نور سے جو روح بلا بدن تھا۔ پھر ہم کو اپنی قدرت سے پیدا کیا پس اس کا نور ہم میں جاری ہوا۔

حدیث نمبر 4

أَحْمَدُ عَنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ أَوْحَى الله تَعَالَى إِلَى مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) أَنِّي خَلَقْتُكَ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً وَنَفَخْتُ فِيكَ مِنْ رُوحِي كَرَامَةً مِنِّي أَكْرَمْتُكَ بِهَا حِينَ أَوْجَبْتُ لَكَ الطَّاعَةَ عَلَى خَلْقِي جَمِيعاً فَمَنْ أَطَاعَكَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَاكَ فَقَدْ عَصَانِي وَأَوْجَبْتُ ذَلِكَ فِي عَلِيٍّ وَفِي نَسْلِهِ مِمَّنِ اخْتَصَصْتُهُ مِنْهُمْ لِنَفْسِي۔

ابو حمزہ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ خدا نے وحی کی رسول پر، اے محمد میں نے تجھ کو خلق کیا درآنحالیکہ تو کچھ نہ تھا اور میں نے تجھے بزرگی دینے کے لیے اپنی روح تیرے اندر پھونکی۔ میں نے تیری اطاعت کو اپنی تمام مخلوق پر واجب کیا۔ پس جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور یہی اطاعت میں نے علی اور ان کی نسل کے لیے ان لوگوں کے لیے رکھی جن کو میں نے اپنی ذات کے لیے مخصوص کیا ہے۔

حدیث نمبر 5

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الله بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَجْرَيْتُ اخْتِلافَ الشِّيعَةِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمْ يَزَلْ مُتَفَرِّداً بِوَحْدَانِيَّتِهِ ثُمَّ خَلَقَ مُحَمَّداً وَعَلِيّاً وَفَاطِمَةَ فَمَكَثُوا أَلْفَ دَهْرٍ ثُمَّ خَلَقَ جَمِيعَ الاشْيَاءِ فَأَشْهَدَهُمْ خَلْقَهَا وَأَجْرَى طَاعَتَهُمْ عَلَيْهَا وَفَوَّضَ أُمُورَهَا إِلَيْهِمْ فَهُمْ يُحِلُّونَ مَا يَشَاءُونَ وَيُحَرِّمُونَ مَا يَشَاءُونَ وَلَنْ يَشَاءُوا إِلا أَنْ يَشَاءَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذِهِ الدِّيَانَةُ الَّتِي مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا مَحَقَ وَمَنْ لَزِمَهَا لَحِقَ خُذْهَا إِلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے شیعوں کے اختلاف کا ذکر کیا۔ حضرت نے فرمایا اے محمد اللہ ہمیشہ سے واحد و یکتا ہے۔ پھر اس نے محمد علی اور فاطمہ کو پیدا کیا اور ان حضرات کو ان کی خلقت پر گواہ بنایا اور ان کی اطاعت کو لوگوں پر واجب کیا اور ان کے معاملات کو ان کے سپرد کیا۔ پس وہ جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں حرام کرتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے مگر وہی جس کو اللہ چاہتا ہے۔ پھر فرمایا اے محمد ( یہ اختلاف ظہور قائم آل محمد سے پہلے باقی رہے گا) یہ وہ دیانت الہٰیہ ہے کہ جو اس سے آگے بڑھا اسلام سے خارج ہوا اور جو اس سے پیچھے رہا وہ معطل رہا اور جو باطل پرست نہ بنا اور جو حق سے چمٹا رہا وہ ٹھیک رہا پس اے محمد تم یہی طریقہ اختیار کرو۔

حدیث نمبر 6

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام )أَنَّ بَعْضَ قُرَيْشٍ قَالَ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بِأَيِّ شَيْ‏ءٍ سَبَقْتَ الانْبِيَاءَ وَأَنْتَ بُعِثْتَ آخِرَهُمْ وَخَاتَمَهُمْ قَالَ إِنِّي كُنْتُ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِرَبِّي وَأَوَّلَ مَنْ أَجَابَ حِينَ أَخَذَ الله مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ نَبِيٍّ قَالَ بَلَى فَسَبَقْتُهُمْ بِالاقْرَارِ بِالله۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ قریش کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ سے کہا کس وجہ سے آپ کو انبیأ پر سبقت حاصل ہوئی حالانکہ آپ کی بعثت سب سے آخر ہوئی اور آپ ختم الانبیأ ہیں۔ فرمایا میں پہلا شخص ہوں جو اپنے رب پر ایمان لایا اور سب سے پہلے جس نے اس وقت جواب دیا جب کہ انبیأ سے عہد لیا گیا اور ان کے نفسوں پر گواہ بنا، میں ہوں، جب خدا نے کہا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ سب نے اقرار کیا سب سے پہلے کہنے والا میں تھا۔ میں نے اقرار باللہ میں سبقت کی۔

حدیث نمبر 7

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَمَّادٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) كَيْفَ كُنْتُمْ حَيْثُ كُنْتُمْ فِي الاظِلَّةِ فَقَالَ يَا مُفَضَّلُ كُنَّا عِنْدَ رَبِّنَا لَيْسَ عِنْدَهُ أَحَدٌ غَيْرُنَا فِي ظُلَّةٍ خَضْرَاءَ نُسَبِّحُهُ وَنُقَدِّسُهُ وَنُهَلله وَنُمَجِّدُهُ وَمَا مِنْ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ وَلا ذِي رُوحٍ غَيْرُنَا حَتَّى بَدَا لَهُ فِي خَلْقِ الاشْيَاءِ فَخَلَقَ مَا شَاءَ كَيْفَ شَاءَ مِنَ الْمَلائِكَةِ وَغَيْرِهِمْ ثُمَّ أَنْهَى عِلْمَ ذَلِكَ إِلَيْنَا۔

مفضل نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا آپ ظلِ رحمتِ الہٰی کےے تحت کس طرح رہے۔ فرمایا ظلِ سبز کے تحت ہم ہی تھے کوئی غیر نہ تھا۔ ہم اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس و تمجید کرتے تھے کوئی ملک مقرب یا ذی روح ہمارے سوا نہ تھا پھر خدا نے اشیأ کو پیدا کرنا شروع کیا پس جو چاہا اور جیسا چاہا بنایا ملائکہ وغیرہ سے پھر علم کو ہم تک پہنچایا۔

حدیث نمبر 8

سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ قَالَ سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ يَعْقُوبَ عَنْ سِنَانِ بْنِ طَرِيفٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ قَالَ إِنَّا أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتٍ نَوَّهَ الله بِأَسْمَائِنَا إِنَّهُ لَمَّا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالارْضَ أَمَرَ مُنَادِياً فَنَادَى أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله ثَلاثاً أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله ثَلاثاً أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيّاً أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ حَقّاً ثَلاثاً۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہم سب سے پہلے وہ خانوادہ ہیں کہ بلند کیا اللہ نے ہمارے ناموں کو جب اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تو ایک منادی کو یہ ندا کرنے کا حکم دیا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ (تین بار) اور اشھد ان محمد رسول اللہ (تین بار) اور اشھد ان امیر المومنین حقاً (تین بار)۔

حدیث نمبر 9

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الله الصَّغِيرِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام ) قَالَ إِنَّ الله كَانَ إِذْ لا كَانَ فَخَلَقَ الْكَانَ وَالْمَكَانَ وَخَلَقَ نُورَ الانْوَارِ الَّذِي نُوِّرَتْ مِنْهُ الانْوَارُ وَأَجْرَى فِيهِ مِنْ نُورِهِ الَّذِي نُوِّرَتْ مِنْهُ الانْوَارُ وَهُوَ النُّورُ الَّذِي خَلَقَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَعَلِيّاً فَلَمْ يَزَالا نُورَيْنِ أَوَّلَيْنِ إِذْ لا شَيْ‏ءَ كُوِّنَ قَبْلَهُمَا فَلَمْ يَزَالا يَجْرِيَانِ طَاهِرَيْنِ مُطَهَّرَيْنِ فِي الاصْلابِ الطَّاهِرَةِ حَتَّى افْتَرَقَا فِي أَطْهَرِ طَاهِرَيْنِ فِي عَبْدِ الله وَأَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِ السَّلام )۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا تھا جب کوئی نہ تھا۔ خدا نے کون و مکان کو پیدا کیا اور ایک نور کو پیدا کیا جس سے تمام انوار نے روشنی حاصل کی اور اس میں جگہ دی اپنے اس نور کو جس سے انوار کو ضیأ دی، یہی نور تھا جس سے محمد و علی کو پیدا کیا۔ یہی دو نسل نور اولین تھے ان سے پہلے کوئی اور شے نہ تھی یہ طاہر و مطہر اصلابِ طاہرہ کی طرف منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ دو پاک صلبوں عبداللہ اور ابو طالب میں منتقل ہوئے۔

حدیث نمبر 10

الْحُسَيْنُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَا جَابِرُ إِنَّ الله أَوَّلَ مَا خَلَقَ خَلَقَ مُحَمَّداً (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَعِتْرَتَهُ الْهُدَاةَ الْمُهْتَدِينَ فَكَانُوا أَشْبَاحَ نُورٍ بَيْنَ يَدَيِ الله قُلْتُ وَمَا الاشْبَاحُ قَالَ ظِلُّ النُّورِ أَبْدَانٌ نُورَانِيَّةٌ بِلا أَرْوَاحٍ وَكَانَ مُؤَيَّداً بِرُوحٍ وَاحِدَةٍ وَهِيَ رُوحُ الْقُدُسِ فَبِهِ كَانَ يَعْبُدُ الله وَعِتْرَتَهُ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ حُلَمَاءَ عُلَمَاءَ بَرَرَةً أَصْفِيَاءَ يَعْبُدُونَ الله بِالصَّلاةِ وَالصَّوْمِ وَالسُّجُودِ وَالتَّسْبِيحِ وَالتَّهْلِيلِ وَيُصَلُّونَ الصَّلَوَاتِ وَيَحُجُّونَ وَيَصُومُونَ۔

جابر سے مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اے جابر خدا نے سب سے پہلے حضرت رسولِ خدا اور ان کی عترت کو پیدا کیا جو خلق کو ہدایت کرنے والے ہیں وہ نورانی پیکر تھے پیشِ خدا، میں نے کہا اشباح سے کیا مراد ہے۔ فرمایا نور کا پرتو، ابدانِ نورانیہ بلا ارواح اور وہ موئد تھے روحِ واحد سے جو روح القدس ہے پس وہ اور ان کی عترت اسی القدس سے اللہ کی عبادت کرتے تھے اسی لیے اللہ نے ان کو حلیم، عالم، نیک اور صاحب باطن بنایا۔ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ نماز سے روزہ سے سجدوں سے اور تسبیح و تہلیل سے نماز پڑھتے ہیں حج کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں۔

حدیث نمبر 11

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَغَيْرُهُ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ شَبَابٍ الصَّيْرَفِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ النَّهْدِيِّ عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ حَارِثٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ الْعِجْلِيِّ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كَانَ فِي رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثَلاثَةٌ لَمْ تَكُنْ فِي أَحَدٍ غَيْرِهِ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَيْ‏ءٌ وَكَانَ لا يَمُرُّ فِي طَرِيقٍ فَيُمَرُّ فِيهِ بَعْدَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ إِلا عُرِفَ أَنَّهُ قَدْ مَرَّ فِيهِ لِطِيبِ عَرْفِهِ وَكَانَ لا يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلا بِشَجَرٍ إِلا سَجَدَ لَهُ۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے رسول اللہ میں تین خصوصیتیں ایسی تھیں جو دوسروں میں نہ تھیں۔ حضرت کے سایہ نہ تھا، جب کسی راستے سے گزرتے تو تین روز تک وہاں خوشبو رہتی، تیسرے جب کسی حجر یا شجر کی طرف سے گزرتے تو وہ سجدہ کرتا تھا۔

حدیث نمبر 12

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا عُرِجَ بِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) انْتَهَى بِهِ جَبْرَئِيلُ إِلَى مَكَانٍ فَخَلَّى عَنْهُ فَقَالَ لَهُ يَا جَبْرَئِيلُ تُخَلِّينِي عَلَى هَذِهِ الْحَالَةِ فَقَالَ امْضِهْ فَوَ الله لَقَدْ وَطِئْتَ مَكَاناً مَا وَطِئَهُ بَشَرٌ وَمَا مَشَى فِيهِ بَشَرٌ قَبْلَكَ۔

فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب رسول اللہ معراج کو گئے تو جبرئیل ان کے ساتھ ایک مقام تک گئے اس کے بعد حضرت سے الگ ہو گئے۔ آپ نے فرمایا اے جبرئیل کیا اس حالت میں تم میرا ساتھ چھوڑ رہے ہو انھوں نے کہا آپ آگے چلیں بخدا اس مقام پر آپ سے پہلے کوئی انسان نہیں گیا اور نہ اس جگہ پر چلا۔

حدیث نمبر 13

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَوْهَرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَأَلَ أَبُو بَصِيرٍ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَنَا حَاضِرٌ فَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ كَمْ عُرِجَ بِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ مَرَّتَيْنِ فَأَوْقَفَهُ جَبْرَئِيلُ مَوْقِفاً فَقَالَ لَهُ مَكَانَكَ يَا مُحَمَّدُ فَلَقَدْ وَقَفْتَ مَوْقِفاً مَا وَقَفَهُ مَلَكٌ قَطُّ وَلا نَبِيٌّ إِنَّ رَبَّكَ يُصَلِّي فَقَالَ يَا جَبْرَئِيلُ وَكَيْفَ يُصَلِّي قَالَ يَقُولُ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ أَنَا رَبُّ الْمَلائِكَةِ وَالرُّوحِ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي فَقَالَ اللهمَّ عَفْوَكَ عَفْوَكَ قَالَ وَكَانَ كَمَا قَالَ الله قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى‏ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَصِيرٍ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى قَالَ مَا بَيْنَ سِيَتِهَا إِلَى رَأْسِهَا فَقَالَ كَانَ بَيْنَهُمَا حِجَابٌ يَتَلالا يَخْفِقُ وَلا أَعْلَمُهُ إِلا وَقَدْ قَالَ زَبَرْجَدٌ فَنَظَرَ فِي مِثْلِ سَمِّ الابْرَةِ إِلَى مَا شَاءَ الله مِنْ نُورِ الْعَظَمَةِ فَقَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا مُحَمَّدُ قَالَ لَبَّيْكَ رَبِّي قَالَ مَنْ لامَّتِكَ مِنْ بَعْدِكَ قَالَ الله أَعْلَمُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَسَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ وَقَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) لابِي بَصِيرٍ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ وَالله مَا جَاءَتْ وَلايَةُ علي (عَلَيْهِ السَّلام) مِنَ الارْضِ وَلَكِنْ جَاءَتْ مِنَ السَّمَاءِ مُشَافَهَة۔

راوی کہتا ہے ابو بصیر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا میں وہاں موجود تھا۔ رسول اللہ کو کتنی بار معراج ہوئی۔ فرمایا دو بار جبرئیل نے حضرت کو ان کے مرتبے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا اے محمد آپ اپنے مقام کو پہچانیے۔ آپ ایک ایسی جگہ ہیں کہ وہاں تک نہ کوئی فرشتہ پہنچا ہے نہ کوئی نبی۔ بے شک تمہارا رب تمہارے لیے وصی قرار دیتا ہے۔ حضرت نے پوچھا کہ اس تعین کی صورت کیا ہے۔ کہا میں قابل تسبیح و تقدیس ہوں۔ میں ملائکہ اور روح کا رب ہوں۔ میری رحمت میرے غضب سے پہلے ہے۔ حضرت نے فرمایا یا اللہ تیری رحمت کا خواستگار ہوں۔ ابوبصیر نے کہا کہ امام نے فرمایا وہ مقام جہاں رسول اللہ پہنچے حسب فرمودہ الہٰی قاب و قوسین تھا ابو بصیر نے کہا میں آپ پر فدا ہوں قاب و قوسین کیا ہے۔ فرمایا وہ درمیانی حصہ ہے یعنی قبضہ آسمان جس سے کناروں تک دونوں (حجاب عظمت و رسول) حصے برابر ہوتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ تھا چمکدار جو لہراتا تھا۔ زبرجد کا رسول نے سوئی کے ناکے جیسے باریک سوراخ سے نورِ عظمت الہٰیہ کا معائنہ کیا۔ خدا نے کہا اے محمد تمہارے بعد تمہاری امت کا ہادی کون ہو گا۔ عرض کیا تو ہی بہتر جانتا ہے۔ کہا علی ابن ابی طالب امیر المومنین سید المسلمین ہے۔ پھر امام نے فرمایا اے ابو محمد (کنیت ابو بصیر) بخدا ولایت علی زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے منہ بہ منہ آئی ہے۔

حدیث نمبر 14

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) صِفْ لِي نَبِيَّ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كَانَ نَبِيُّ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَبْيَضَ مُشْرَبَ حُمْرَةٍ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ مَقْرُونَ الْحَاجِبَيْنِ شَثْنَ الاطْرَافِ كَأَنَّ الذَّهَبَ أُفْرِغَ عَلَى بَرَاثِنِهِ عَظِيمَ مُشَاشَةِ الْمَنْكِبَيْنِ إِذَا الْتَفَتَ يَلْتَفِتُ جَمِيعاً مِنْ شِدَّةِ اسْتِرْسَالِهِ سُرْبَتُهُ سَائِلَةٌ مِنْ لَبَّتِهِ إِلَى سُرَّتِهِ كَأَنَّهَا وَسَطُ الْفِضَّةِ الْمُصَفَّاةِ وَكَأَنَّ عُنُقَهُ إِلَى كَاهِلِهِ إِبْرِيقُ فِضَّةٍ يَكَادُ أَنْفُهُ إِذَا شَرِبَ أَنْ يَرِدَ الْمَاءَ وَإِذَا مَشَى تَكَفَّأَ كَأَنَّهُ يَنْزِلُ فِي صَبَبٍ لَمْ يُرَ مِثْلُ نَبِيِّ الله قَبْلَهُ وَلا بَعْدَهُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )۔

جابر سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ حضرت رسولِ خدا کا حلیہ مبارک مجھ سے بیان کیجیے۔ فرمایا حضرت کا رنگ سرخی مائل سفید تھا دونوں آنکھیں فراخ و سیاہ، دو ابرو ملے ہوئے بھاری انگلیاں گویا سونا پگھلا کر چڑھا دیا گیا ہے اور دونوں کندھوں کی ہڈی چوڑی تھی اور مضبوط، جب کسی طرف داہنے یا بائیں مڑتے تو پورے بدن سے سینہ کے بال سینہ کی ابتدا سے ناف تک تھے۔ گویا چاندی کا صاف شدہ بدن ہے اور کندھے کے اوپر آپ کی گردن چاندی کی صراحی معلوم ہوتی تھی جب پانی پیتے تو آپ کی بینی کشیدہ پانی سے متصل ہو جاتی اور جب چلتے تو سر جھکا کر گویا کسی نشیب کی طرف اتر رہے ہیں۔ حضرت جیسا کوئی نہ پہلے نظر آیا نہ بعد میں۔

حدیث نمبر 15

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ إِنَّ الله مَثَّلَ لِي أُمَّتِي فِي الطِّينِ وَعَلَّمَنِي أَسْمَاءَهُمْ كَمَا عَلَّمَ آدَمَ الاسْمَاءَ كُلَّهَا فَمَرَّ بِي أَصْحَابُ الرَّايَاتِ فَاسْتَغْفَرْتُ لِعَلِيٍّ وَشِيعَتِهِ إِنَّ رَبِّي وَعَدَنِي فِي شِيعَةِ عَلِيٍّ خَصْلَةً قِيلَ يَا رَسُولَ الله وَمَا هِيَ قَالَ الْمَغْفِرَةُ لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ وَأَنْ لا يُغَادِرَ مِنْهُمْ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً وَلَهُمْ تُبَدَّلُ السَّيِّئَاتُ حَسَنَاتٍ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا خدا نے میرے لیے میری امت کو مٹی کا پیکر بنایا اور مجھے ان کے نام اس طرح بتائے جیسے آدم کو اسمأ تعلیم کیے تھے۔ میری طرف جھنڈے لے کر اصحاب گزرے۔ میں نے علی اور ان کے شیعوں کے لیے استغفار کیا۔ میرے رب نے علی کے شیعوں کے لیے ایک بات کا وعدہ کیا۔ کسی نے پوچھا وہ کیا ہے فرمایا مغفرت اس شخص کے لیے جو ان میں سے ایمان لائے میں ان کی بدیوں کو نیکیوں سے بدل دوں گا خواہ چھوٹے ہوں سن میں یا بڑے۔

حدیث نمبر 16

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَيْفٍ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ خَطَبَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) النَّاسَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى قَابِضاً عَلَى كَفِّهِ ثُمَّ قَالَ أَ تَدْرُونَ أَيُّهَا النَّاسُ مَا فِي كَفِّي قَالُوا الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَقَالَ فِيهَا أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ الشِّمَالَ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ أَ تَدْرُونَ مَا فِي كَفِّي قَالُوا الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَقَالَ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ قَالَ حَكَمَ الله وَعَدَلَ حَكَمَ الله وَعَدَلَ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ نے لوگوں میں خطبہ بیان کیا پھر اپنا داہنا ہاتھ اٹھایا درآنحالیکہ مٹھی آپ کی بند تھی لوگوں سے فرمایا بتاؤ اس میں کیا ہے۔ انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ فرمایا اس میں اہل جنت کے نام ہیں ان کے آبا و اجداد کے اور ان کے قبیلوں کے قیامت تک۔ پھر بایاں ہاتھ اسی طرح اٹھایا اور پوچھا بتاؤ اس میں کیا ہے۔ انھوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو بہتر علم ہے۔ فرمایا یہ نام ہیں دوزخیوں کے، ان کے آبأ اور ان کے قبائل کے جو قیامت تک ہونیوالے ہیں۔ پھر فرمایا اللہ نے حکم دیا ہے اور انصاف سے دیا ہے اور اللہ کا حکم انصاف ہے۔ فرماتا ہے ایک فریق جنت میں ہو گا اور ایک فریق دوزخ میں۔

حدیث نمبر 18

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ هِلالٍ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَلِيٍّ الْقَيْسِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي دُرُسْتُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا الْحَسَنِ الاوَّلَ (عَلَيْهِ السَّلام) أَ كَانَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مَحْجُوجاً بِأَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لا وَلَكِنَّهُ كَانَ مُسْتَوْدَعاً لِلْوَصَايَا فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ قُلْتُ فَدَفَعَ إِلَيْهِ الْوَصَايَا عَلَى أَنَّهُ مَحْجُوجٌ بِهِ فَقَالَ لَوْ كَانَ مَحْجُوجاً بِهِ مَا دَفَعَ إِلَيْهِ الْوَصِيَّةَ قَالَ فَقُلْتُ فَمَا كَانَ حَالُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَقَرَّ بِالنَّبِيِّ وَبِمَا جَاءَ بِهِ وَدَفَعَ إِلَيْهِ الْوَصَايَا وَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ۔

کسی نے پوچھا کیا رسول اللہ محکم ابو طالب تھے (کیونکہ ان کے زیر سایہ پرورش پائی تھی) فرمایا نہیں بلکہ انبیأ سابقہ کے تبرکات اور وصایا ان کو دیے گئے تھے انھوں نے وہ چیزیں حضرت رسول خدا کو دیں۔ میں نے کہا جب وصیت سپرد کی تو محکوم بہ ہو گئے۔ فرمایا اگر ایسا ہوتا تو وصیت ان کی سپرد نہ کی جاتی۔ میں نے کہا پھر ابو طالب کے لیے کیا صورت ہے۔ فرمایا انھوں نے حضرت کی نبوت کا اقرار کیا اور جو رسول خدا کی طرف سے لائے اس کو حق جانا اور وصائے انبیاٗ کو حضرت کے سپرد کیا اور اسی روز مر گئے۔

حدیث نمبر 19

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ سَالِمٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بَاتَ آلُ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهم السَّلام) بِأَطْوَلِ لَيْلَةٍ حَتَّى ظَنُّوا أَنْ لا سَمَاءَ تُظِلُّهُمْ وَلا أَرْضَ تُقِلُّهُمْ لانَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَتَرَ الاقْرَبِينَ وَالابْعَدِينَ فِي الله فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاهُمْ آتٍ لا يَرَوْنَهُ وَيَسْمَعُونَ كَلامَهُ فَقَالَ السَّلامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ إِنَّ فِي الله عَزَاءً مِنْ كُلِّ مُصِيبَةٍ وَنَجَاةً مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ وَدَرَكاً لِمَا فَاتَ كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فازَ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلا مَتاعُ الْغُرُورِ إِنَّ الله اخْتَارَكُمْ وَفَضَّلَكُمْ وَطَهَّرَكُمْ وَجَعَلَكُمْ أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّهِ وَاسْتَوْدَعَكُمْ عِلْمَهُ وَأَوْرَثَكُمْ كِتَابَهُ وَجَعَلَكُمْ تَابُوتَ عِلْمِهِ وَعَصَا عِزِّهِ وَضَرَبَ لَكُمْ مَثَلاً مِنْ نُورِهِ وَعَصَمَكُمْ مِنَ الزَّلَلِ وَآمَنَكُمْ مِنَ الْفِتَنِ فَتَعَزَّوْا بِعَزَاءِ الله فَإِنَّ الله لَمْ يَنْزِعْ مِنْكُمْ رَحْمَتَهُ وَلَنْ يُزِيلَ عَنْكُمْ نِعْمَتَهُ فَأَنْتُمْ أَهْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ بِهِمْ تَمَّتِ النِّعْمَةُ وَاجْتَمَعَتِ الْفُرْقَةُ وَائْتَلَفَتِ الْكَلِمَةُ وَأَنْتُمْ أَوْلِيَاؤُهُ فَمَنْ تَوَلاكُمْ فَازَ وَمَنْ ظَلَمَ حَقَّكُمْ زَهَقَ مَوَدَّتُكُمْ مِنَ الله وَاجِبَةٌ فِي كِتَابِهِ عَلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ثُمَّ الله عَلَى نَصْرِكُمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ فَاصْبِرُوا لِعَوَاقِبِ الامُورِ فَإِنَّهَا إِلَى الله تَصِيرُ قَدْ قَبَّلَكُمُ الله مِنْ نَبِيِّهِ وَدِيعَةً وَاسْتَوْدَعَكُمْ أَوْلِيَاءَهُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الارْضِ فَمَنْ أَدَّى أَمَانَتَهُ آتَاهُ الله صِدْقَهُ فَأَنْتُمُ الامَانَةُ الْمُسْتَوْدَعَةُ وَلَكُمُ الْمَوَدَّةُ الْوَاجِبَةُ وَالطَّاعَةُ الْمَفْرُوضَةُ وَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَقَدْ أَكْمَلَ لَكُمُ الدِّينَ وَبَيَّنَ لَكُمْ سَبِيلَ الْمَخْرَجِ فَلَمْ يَتْرُكْ لِجَاهِلٍ حُجَّةً فَمَنْ جَهِلَ أَوْ تَجَاهَلَ أَوْ أَنْكَرَ أَوْ نَسِيَ أَوْ تَنَاسَى فَعَلَى الله حِسَابُهُ وَالله مِنْ وَرَاءِ حَوَائِجِكُمْ وَأَسْتَوْدِعُكُمُ الله وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ فَسَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) مِمَّنْ أَتَاهُمُ التَّعْزِيَةُ فَقَالَ مِنَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جس شب کو رسول اللہ کا انتقال ہوا آل محمد کے لیے وہ رات سب سے زیادہ لمبی رات تھی اور ایسی حالت تھی کہ لوگوں نے گمان کیا کہ نہ ان کے اوپر آسمان کا سایہ ہے نہ نیچے زمین کا فرش یعنی ان کے زندہ رہنے کی امید نہ تھی کیونکہ آنحضرت کی مفارقت کے تصور نے نزدیکی رشتہ داروں اور دور کے تعلق والوں سب ہی کو آزردہ بنا دیا تھا۔ اسی اثنأ میں ایک آنے والا آیا۔ اس کو لوگ نہیں دیکھتے تھے۔ اس نے کہا اسلام علیکم اے اہلبیت تم پر خدا کی رحمت اور برکت ہو۔ اللہ پر توکل کرنا، ہر مصیبت میں صبر کرنا ہر مہلکہ سے نجات ہے اور ہر مافات کی تلافی ہے ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے روز قیامت تم کو اس صبر کا اجر ملے گا جو آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل ہوا وہ کامیاب ہوا اور زندگانی دنیا متاع غرور کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ نے تم کو منتخب کیا اور تم کو فضیلت دی اور پاک رکھا تم کو اپنے نبی کے اہلبیت بنایا اور اپنا علم تمہارے اندر ودیعت کیا اور تم کو اپنی کتاب کا وارث بنایا اور اپنے علم کا صندوق قرار دیا اور اپنی عزت کا عصا بنایا اور اپنے نور سے تمہاری مثال دی، لغزشوں سے تمہیں بچایا اور فتنوں سے محفوظ رکھا۔ پس صبر کرو جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے ، اللہ نے اپنی رحمت سےے تم کو دور نہ رکھا اور اپنی نعمت کو تم سے زائل نہ کیا۔ کیا تم وہ اللہ والے ہو کہ تمہاری وجہ سے اللہ والوں کی نعمتیں تمام ہوئیں اور فرقے جمع ہوئے اور انس ہوا کلمہ سےے تم اولیائے خدا ہو۔ پس جس نے تم کو دوست رکھا وہ کامیاب ہوا اور جس نے تمہارے حق کو غصب کیا وہ ہلاک ہوا۔ تمہاری محبت اللہ نے اپنی کتاب میں اپنے مومن بندوں پر واجب کی ہے۔ اللہ تمہاری نصرت پر جس وقت چاہے قادر ہے۔ پس انجام امور پر صبر کرو۔ اس کی بازگشت اللہ کی طرف ہے اور اللہ نے منظور کیا اپنے نبی سے تمہاری سپرد امامت کرنے کو اور اپنے مومنین اولیأ کو تمہارے سپرد کیا۔ پس جس نے اس امانت کو ادا کیا خدا نے اس کو نیکی عطا فرمائی ، پس تم ہو وہ جن کو امامت سونپی گئی ہے۔ تمہاری اطاعت واجب تمہاری محبت فرض کی گئی ہے۔ رسول اللہ نے مرنے سے پہلے دین کو کامل بنا دیا اور برائی سے باہر نکلنے کا راستہ واضح کر دیا۔ ایسی صورت میں جاہل کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہتی، پس جو جاہل یا جاہل بنایا انکار یا بھول گیا عہد ربوبیت کو یا قصداً بھلایا تو روزِ قیامت اس کا حساب اللہ پر ہے اور تمہارے پس پردہ اللہ ہے اللہ نے اپنے اسرار تم کو ودیعت کر دیئے ہیں۔ سلام ہو تم پر۔ راوی کہتا ہے میں امام سے سوال کیا یہ تسلی اور دلاسہ کس کی طرف سے آیا ہے۔ فرمایا خدا کی طرف سے۔

حدیث نمبر 20

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كَانَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِذَا رُئِيَ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ رُئِيَ لَهُ نُورٌ كَأَنَّهُ شِقَّةُ قَمَرٍ۔

فرمایا صادق آلِ محمد نے جب رسول اللہ کو شب تار میں دیکھا جاتا تھا تو چاند کے ٹکڑے کی طرح ایک نور آپ سے ساطع ہوتا تھا۔

حدیث نمبر 21

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ الله عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْحُسَيْنِ الصَّغِيرِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ بَعْضِ رِجَالِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يُقْرِئُكَ السَّلامَ وَيَقُولُ إِنِّي قَدْ حَرَّمْتُ النَّارَ عَلَى صُلْبٍ أَنْزَلَكَ وَبَطْنٍ حَمَلَكَ وَحَجْرٍ كَفَلَكَ فَالصُّلْبُ صُلْبُ أَبِيكَ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَالْبَطْنُ الَّذِي حَمَلَكَ فَ‏آمِنَةُ بِنْتُ وَهْبٍ وَأَمَّا حَجْرٌ كَفَلَكَ فَحَجْرُ أَبِي طَالِبٍ. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ فَضَّالٍ وَفَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ پر جبرئیل نازل ہوئے اور کہا خدا کا سلام آپ پر ہو۔ وہ کہتا ہے میں نے آگ کو حرام کیا ان اصلاب و ارحام پر جن میں تم رہ رہے ہو اوراس آغوش پر جس میں تمہاری پرورش ہوئی اور صلب تمہارے باپ عبداللہ کا صلب ہے اور بطن جس نے بحالتِ حمل تم کو اٹھایا بطنِ آمنہ بنت وہب ہے اور جس آغوش میں تم پلے وہ آغوش ابوطالب ہے اور ایک روایت میں ہے وہ آغوش فاطمہ بنت اسد ہے۔

حدیث نمبر 22

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ يُحْشَرُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُمَّةً وَاحِدَةً عَلَيْهِ سِيمَاءُ الانْبِيَاءِ وَهَيْبَةُ الْمُلُوكِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے عبدالمطلب روزِ محشر ایک جداگانہ حیثیت سے محشور ہوں گے ان کی پیشانی انبیأ کی سی ہو گی اور ہیبت ملوک کی سی۔

حدیث نمبر23

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الاصَمِّ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ مُقَرِّنٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ أَوَّلُ مَنْ قَالَ بِالْبَدَاءِ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُمَّةً وَحْدَهُ عَلَيْهِ بَهَاءُ الْمُلُوكِ وَسِيمَاءُ الانْبِيَاءِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ عبدالمطلب مسئلہ بدأ کے سب سے پہلے قائل ہوئے وہ روز قیامت عام لوگوں سے بالکل الگ خاص حیثیت میں محشور ہونگے۔ ان کی پیشانی انبیأ کی سی ہو گی اور ہیبت ملوک کی سی۔

حدیث نمبر 24

بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنِ ابْنِ جُمْهُورٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ ابْنِ رِئَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ جَمِيعاً عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ يُبْعَثُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ أُمَّةً وَحْدَهُ عَلَيْهِ بَهَاءُ الْمُلُوكِ وَسِيمَاءُ الانْبِيَاءِ وَذَلِكَ أَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ قَالَ بِالْبَدَاءِ قَالَ وَكَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ أَرْسَلَ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِلَى رُعَاتِهِ فِي إِبِلٍ قَدْ نَدَّتْ لَهُ فَجَمَعَهَا فَأَبْطَأَ عَلَيْهِ فَأَخَذَ بِحَلْقَةِ بَابِ الْكَعْبَةِ وَجَعَلَ يَقُولُ يَا رَبِّ أَ تُهْلِكُ آلَكَ إِنْ تَفْعَلْ فَأَمْرٌ مَا بَدَا لَكَ فَجَاءَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بِالابِلِ وَقَدْ وَجَّهَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فِي كُلِّ طَرِيقٍ وَفِي كُلِّ شِعْبٍ فِي طَلَبِهِ وَجَعَلَ يَصِيحُ يَا رَبِّ أَ تُهْلِكُ آلَكَ إِنْ تَفْعَلْ فَأَمْرٌ مَا بَدَا لَكَ وَلَمَّا رَأَى رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) أَخَذَهُ فَقَبَّلَهُ وَقَالَ يَا بُنَيَّ لا وَجَّهْتُكَ بَعْدَ هَذَا فِي شَيْ‏ءٍ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ تُغْتَالَ فَتُقْتَلَ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے روزِ قیامت عبدالمطلب اس طرح محشور ہوں گے کہ تمام لوگوں سے الگ ان کی شان ہو گی ان میں انبیأ کی سی تابندگی پیشانی پر ہو گی بادشاہوں کی سی شان و شوکت ہو گی یہ اس لیے کہ وہ بدأ کے سب سے پہلے قائل تھے۔ ایک بار انھوں نے رسولِ خدا کو اونٹوں کے چرواہوں کے پاس بھیجا۔ اونٹ بھاگ کر متفرق ہو گئے تھے۔ حضرت نے ان کو جمع کیا اس لیے واپسی میں تاخیر ہوئی۔ حضرت عبدالمطلب گھبرائے اورخانہ کعبہ کے دروازہ کی زنجیر پکڑ کر فریاد کرنے لگے اے میرے رب کیا تو اپنے محبوب بندے کو ہلاک کر دے گا اگر تو ایسا کرے گا تو یہ ایک امرِ عظیم ہو گا جو تیرے اوپر ظاہر ہے اس کے بعد رسول اللہ اونٹوں کو لے کر آئے۔ عبدالمطلب راستوں میں اور گھاٹیوں میں حضرت کو تلاش کر رہے تھے اور فرما رہے تھے اے پروردگار کیا تو اپنے محبوب بندے کو ہلاک کر دے گا یہ امر عظیم ہے جو امر تجھ پر ظاہر ہے۔ رسول اللہ کو دیکھتے ہی انھوں نے چھاتی سے لگایا اور روئے مبارک پر بوسہ دے کر فرمایا، اب میں کبھی تم کو کسی کام کو نہ بھیجوں گا اس خوف سے کہ مبادا کوئی فریب دے کر تم کو قتل کر ڈالے۔

حدیث نمبر 25

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُمْرَانَ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) لَمَّا أَنْ وَجَّهَ صَاحِبُ الْحَبَشَةِ بِالْخَيْلِ وَمَعَهُمُ الْفِيلُ لِيَهْدِمَ الْبَيْتَ مَرُّوا بِإِبِلٍ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَسَاقُوهَا فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ فَأَتَى صَاحِبَ الْحَبَشَةِ فَدَخَلَ الاذِنُ فَقَالَ هَذَا عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ هَاشِمٍ قَالَ وَمَا يَشَاءُ قَالَ التَّرْجُمَانُ جَاءَ فِي إِبِلٍ لَهُ سَاقُوهَا يَسْأَلُكَ رَدَّهَا فَقَالَ مَلِكُ الْحَبَشَةِ لاصْحَابِهِ هَذَا رَئِيسُ قَوْمٍ وَزَعِيمُهُمْ جِئْتُ إِلَى بَيْتِهِ الَّذِي يَعْبُدُهُ لاهْدِمَهُ وَهُوَ يَسْأَلُنِي إِطْلاقَ إِبِلِهِ أَمَا لَوْ سَأَلَنِيَ الامْسَاكَ عَنْ هَدْمِهِ لَفَعَلْتُ رُدُّوا عَلَيْهِ إِبِلَهُ فَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لِتَرْجُمَانِهِ مَا قَالَ لَكَ الْمَلِكُ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ أَنَا رَبُّ الابِلِ وَلِهَذَا الْبَيْتِ رَبٌّ يَمْنَعُهُ فَرُدَّتْ إِلَيْهِ إِبِلُهُ وَانْصَرَفَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ نَحْوَ مَنْزِلِهِ فَمَرَّ بِالْفِيلِ فِي مُنْصَرَفِهِ فَقَالَ لِلْفِيلِ يَا مَحْمُودُ فَحَرَّكَ الْفِيلُ رَأْسَهُ فَقَالَ لَهُ أَ تَدْرِي لِمَ جَاءُوا بِكَ فَقَالَ الْفِيلُ بِرَأْسِهِ لا فَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ جَاءُوا بِكَ لِتَهْدِمَ بَيْتَ رَبِّكَ أَ فَتُرَاكَ فَاعِلَ ذَلِكَ فَقَالَ بِرَأْسِهِ لا فَانْصَرَفَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ إِلَى مَنْزِلِهِ فَلَمَّا أَصْبَحُوا غَدَوْا بِهِ لِدُخُولِ الْحَرَمِ فَأَبَى وَامْتَنَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لِبَعْضِ مَوَالِيهِ عِنْدَ ذَلِكَ اعْلُ الْجَبَلَ فَانْظُرْ تَرَى شَيْئاً فَقَالَ أَرَى سَوَاداً مِنْ قِبَلِ الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ يُصِيبُهُ بَصَرُكَ أَجْمَعَ فَقَالَ لَهُ لا وَلاوْشَكَ أَنْ يُصِيبَ فَلَمَّا أَنْ قَرُبَ قَالَ هُوَ طَيْرٌ كَثِيرٌ وَلا أَعْرِفُهُ يَحْمِلُ كُلُّ طَيْرٍ فِي مِنْقَارِهِ حَصَاةً مِثْلَ حَصَاةِ الْخَذْفِ أَوْ دُونَ حَصَاةِ الْخَذْفِ فَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ وَرَبِّ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ مَا تُرِيدُ إِلا الْقَوْمَ حَتَّى لَمَّا صَارُوا فَوْقَ رُءُوسِهِمْ أَجْمَعَ أَلْقَتِ الْحَصَاةَ فَوَقَعَتْ كُلُّ حَصَاةٍ عَلَى هَامَةِ رَجُلٍ فَخَرَجَتْ مِنْ دُبُرِهِ فَقَتَلَتْهُ فَمَا انْفَلَتَ مِنْهُمْ إِلا رَجُلٌ وَاحِدٌ يُخْبِرُ النَّاسَ فَلَمَّا أَنْ أَخْبَرَهُمْ أَلْقَتْ عَلَيْهِ حَصَاةً فَقَتَلَتْهُ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جبکہ ابرہہ بادشاہِ حبش اپنا لشکر لے کر آیا تو اس کے ساتھ ہاتھی بھی تھا تاکہ خانہ کعبہ کو ڈھا دے اس کے لشکر والے عبدالمطلب کے اونٹوں کے گلہ کی طرف سے گزرے تو ان کو ہانک کر لے گئے جب عبدالمطلب کو پتہ چلا تو پاسبان کے پاس گئے اس نے ابرہہ سے کہا یہ عبدالمطلب بن ہاشم ہیں۔ اس نے کہا کیا چاہتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہمارے لشکر والے ان کے اونٹ لے آئے ہین یہ ان کی واگزاشت چاہتے ہیں ابرہہہ نے اپنے اصحاب سے کہا یہ رئیسِ قوم ہیں انھیں معلوم ہے کہ میں اس کے گھر کے انہدام کے لیے آیا ہوں جس کی یہ عبادت کرتے ہیں یہ بجائے اس کے اپنے اونٹوں کا سوال کرتے ہیں اگر یہ انہدام کعبہ کے روکنے کا سوال کرتے تو میں پورا کرتا۔ اچھا ان کے اونٹ دے دو عبدالمطلب نے ترجمان سے پوچھا کہ بادشاہ نے کیا کہا۔ اس نے بتایا عبدالمطلب نے فرمایا اس سے کہو میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر میں ایک مالک ہے وہ خود اس حملے کو روکے گا اونٹ عبدالمطلب کو واپس دیے گئے اور وہ اپنے گھر کو پلٹے، راہ میں اس ہاتھی سے کہا۔ اے محمود اس نے اپنا سر ہلایا۔ اس سے کہا تو جانتا ہے کہ تجھے یہاں کیوں لائے ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ انھوں نے کہا اس لیے لائے ہیں کہ تیرے رب کا گھر تجھ سے منہدم کرائیں، کیا تو ایسا کرے گا۔ اس نے سر ہلا کر کہا نہیں۔ عبدالمطلب اپنے گھر آ گئے۔ صبح کو جب انھوں نے حرم پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو ہاتھی نے ان کی اطاعت سے انکار کیا۔ عبدالمطلب نے اپنے ایک دوست سے کہا تو پہاڑ پر چڑھ کر دیکھ کیا نظر آتا ہے۔ وہ گیا اور کہنے لگا میں دریا کی طرف سے ایک کالا بادل دیکھ رہا ہوں۔ عبدالمطلب نے کہا تیری نظر نے ٹھیک دیکھا۔ اب آنکھ جما کر دیکھتا رہ، جب وہ سیاہی قرآب آئی تو اس نے کہا یہ تو بہت سے پرندے ہیں ہر ایک کی چونچ میں ایک کنکری ہے بقدر ٹھیکری کے ٹکڑے کے یا اس سے کم عبدالمطلب نے کہا یہ اس قوم کے لیے آئے ہیں۔ ان پرندوں نے وہ کنکریاں ان کے سروں پر ڈالیں جو جسم کو پھوڑتی ان کے پاخانہ کے مقام سے نکل گئیں اور سب ہلاک ہو گئے صرف ان میں سے ایک باقی رہ گیا تاکہ اس حال سے لوگوں کو آگاہ کرے جب وہ بتا چکا تو وہ بھی ہلاک کر دیا گیا۔

حدیث نمبر 26

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ رِفَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ يُفْرَشُ لَهُ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ لا يُفْرَشُ لاحَدٍ غَيْرِهِ وَكَانَ لَهُ وُلْدٌ يَقُومُونَ عَلَى رَأْسِهِ فَيَمْنَعُونَ مَنْ دَنَا مِنْهُ فَجَاءَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَهُوَ طِفْلٌ يَدْرِجُ حَتَّى جَلَسَ عَلَى فَخِذَيْهِ فَأَهْوَى بَعْضُهُمْ إِلَيْهِ لِيُنَحِّيَهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ دَعِ ابْنِي فَإِنَّ الْمَلَكَ قَدْ أَتَاهُ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ خانہ کعبہ میں عبدالمطلب کے لیے فرش بچھایا جاتا تھا ان کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ان کی اولاد پسِ سر کھڑی ہو جاتی تھی تاکہ لوگوں کو ان کے قریب جانے سے روکے۔ رسول اللہ راستے سے گزرتے ہوئے آئے اور ان کی ران پر بیٹھ گئے۔ بعض نے اشارہ کیا کہ ان کو ہٹا دیا جائے۔ عبدالمطلبب نے کہا میرے بیٹے کو رہنے دو سلطنت اس کے پاس آنے والی ہے۔

حدیث نمبر 27

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُعَلَّى عَنْ أَخِيهِ مُحَمَّدٍ عَنْ دُرُسْتَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا وُلِدَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مَكَثَ أَيَّاماً لَيْسَ لَهُ لَبَنٌ فَأَلْقَاهُ أَبُو طَالِبٍ عَلَى ثَدْيِ نَفْسِهِ فَأَنْزَلَ الله فِيهِ لَبَناً فَرَضَعَ مِنْهُ أَيَّاماً حَتَّى وَقَعَ أَبُو طَالِبٍ عَلَى حَلِيمَةَ السَّعْدِيَّةِ فَدَفَعَهُ إِلَيْهَ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو چند دن تک ان کی والدہ کے دودھ نہ اترا۔ ابوطالب نے انکو اپنی چھاتی سے لگایا۔ خدا نے دودھ اتار دیا اور رسول کی رضاعت اس سے ہوئی۔ پھر ابوطالب نے ان کو حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا۔

حدیث نمبر 28

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الايمَانَ وَأَظْهَرُوا الشِّرْكَ فَ‏آتَاهُمُ الله أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوطالب کی مثال اصحابِ کہف کی سی ہے۔ انھوں نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا پس خدا نے ان کو دوہرا اجر دیا۔

حدیث نمبر 29

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الازْدِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قِيلَ لَهُ إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا طَالِبٍ كَانَ كَافِراً فَقَالَ كَذَبُوا كَيْفَ يَكُونُ كَافِراً وَهُوَ يَقُولُ. أَ لَمْ تَعْلَمُوا أَنَّا وَجَدْنَا مُحَمَّداً نَبِيّاً كَمُوسَى خُطَّ فِي أَوَّلِ الْكُتُبِ‏. وَفِي حَدِيثٍ آخَرَ كَيْفَ يَكُونُ أَبُو طَالِبٍ كَافِراً وَهُوَ يَقُولُ. لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ ابْنَنَا لا مُكَذَّبٌ لَدَيْنَا وَلا يَعْبَأُ بِقِيلِ الابَاطِلِ‏وَ أَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلارَامِلِ‏۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے لوگوں سے کہا بعض حضرات کہتے ہیں کہ ابوطالب کافر تھے۔ فرمایا وہ جھوٹے ہیں، کیسے کافر ہو گا وہ جو یہ کہتا ہے کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے محمد کو پایا ہے موسیٰ جیسا نبی جس کا ذکر کتبِ سابقہ میں موجود ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ابوطالب کیوں کر کافر ہو سکتے ہیں جبکہ کہتے ہیں، ہمارا بیٹا جھوٹا نہیں ہے اس کو سب جانتے ہیں اور وہ باطل کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ وہ روشن رو ہے بادل اس کے چہرے سے برکت حاصل کرتا ہے وہ یتیموں کا پشت پناہ ہے اور بیواؤں کی عصمت کا پاسبان ہے۔

حدیث نمبر 30

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَعَلَيْهِ ثِيَابٌ لَهُ جُدُدٌ فَأَلْقَى الْمُشْرِكُونَ عَلَيْهِ سَلَى نَاقَةٍ فَمَلَئُوا ثِيَابَهُ بِهَا فَدَخَلَهُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ الله فَذَهَبَ إِلَى أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لَهُ يَا عَمِّ كَيْفَ تَرَى حَسَبِي فِيكُمْ فَقَالَ لَهُ وَمَا ذَاكَ يَا ابْنَ أَخِي فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ فَدَعَا أَبُو طَالِبٍ حَمْزَةَ وَأَخَذَ السَّيْفَ وَقَالَ لِحَمْزَةَ خُذِ السَّلَى ثُمَّ تَوَجَّهَ إِلَى الْقَوْمِ وَالنَّبِيُّ مَعَهُ فَأَتَى قُرَيْشاً وَهُمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَرَفُوا الشَّرَّ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ لِحَمْزَةَ أَمِرَّ السَّلى عَلَى سِبَالِهِمْ فَفَعَلَ ذَلِكَ حَتَّى أَتَى عَلَى آخِرِهِمْ ثُمَّ الْتَفَتَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي هَذَا حَسَبُكَ فِينَا۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک روز حضرت رسولِ خدا مسجد الحرام میں لباسِ نو پہنے ہوئے آئے۔ مشرکین نے اونٹنی کی آلائش جو بچہ پیدا ہونے کے بعد نکلتی ہے آپ کے اوپرڈالی جس سے آپ کے کپڑے گندے ہو گئے۔ پس اس سے آپ کے دل کو اتنا غم ہوا جتنا خدا نے چاہا۔ آپ ابوطالب کے پاس آئے اور کہا۔ اے چچا آپ کے نزدیک میری کیا قدر ہے۔ انھوں نے پوچھا یہ تمہارا کیا حال ہے۔ حضرت نے واقعہ بیان کیا۔ ابوطالب نے حمزہ کو بلایا تلوار لی اور حمزہ سے کہا اس آلائش کو اٹھاؤ اور آنحضرت کو لے کر قوم کی طرف چلے۔ قریش کعبہ کے گرد جمع تھے۔ جب انھوں نے ابوطالب کو آتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔ آپ نے حمزہ سے کہا کہ اس آلائش کو اٹھاؤ اور ان سب کے منہ پر ملو۔ پھر رسولِ خدا سے فرمایا اے میرے بھتیجے اب تو ہمارا بدلہ پورا ہو گیا۔

حدیث نمبر 31

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو طَالِبٍ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اخْرُجْ مِنْ مَكَّةَ فَلَيْسَ لَكَ فِيهَا نَاصِرٌ وَثَارَتْ قُرَيْشٌ بِالنَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَخَرَجَ هَارِباً حَتَّى جَاءَ إِلَى جَبَلٍ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَهُ الْحَجُونُ فَصَارَ إِلَيْهِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب حضرت ابوطالب کا انتقال ہو گیا تو جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد اب آپ مکہ سے نکل جائیے یہاں اب آپ کا کوئی مددگار نہیں اور قریش آپ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ پس حضرت تیزی کے ساتھ وہاں سے نکلے اور مکہ کے اس پہاڑ کے پاس آئے جس کو حجون کہتے ہیں۔

حدیث نمبر 32

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله رَفَعَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ أَسْلَمَ بِحِسَابِ الْجُمَّلِ قَالَ بِكُلِّ لِسَانٍ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ ابوطالب اسلام لائے مطابق حساب جمل جوہر زبان میں ہے۔

حدیث نمبر 33

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ وَعَبْدِ الله ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِمَا عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ أَسْلَمَ أَبُو طَالِبٍ بِحِسَابِ الْجُمَّلِ وَعَقَدَ بِيَدِهِ ثَلاثاً وَسِتِّينَ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ اسلام لائے ابوطالب بحساب جُمل و عقد اپنے ہاتھ کے لحاظ سے جو 63 ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر 34

مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ أَبِي مَرْيَمَ الانْصَارِيِّ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ كَيْفَ كَانَتِ الصَّلاةُ عَلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ لَمَّا غَسَّلَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَكَفَّنَهُ سَجَّاهُ ثُمَّ أَدْخَلَ عَلَيْهِ عَشَرَةً فَدَارُوا حَوْلَهُ ثُمَّ وَقَفَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي وَسَطِهِمْ فَقَالَ إِنَّ الله وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً فَيَقُولُ الْقَوْمُ كَمَا يَقُولُ حَتَّى صَلَّى عَلَيْهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ وَأَهْلُ الْعَوَالِي۔

راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ حضرت رسولِ خدا پر نماز جنازہ کیسے پڑھی۔ فرمایا جب امیر المومنین غسل دے چکے اور کفن دے کر ڈھانپ چکے تو دس آدمیوں کو اندرر داخل کیا۔ وہ آنحضرت کے گرد کھڑے ہوئے۔ پھر امیر المومنین نے ان کے بیچ میں کھڑے ہو کر سورہ احزاب کی یہ آیت پڑھی ، بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ درود بھیجتے ہیں نبی پر، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجو۔ سب نے یہ آیت پڑھی اسی طرح پھر اہلِ مدینہ اور اس کے گرد کے لوگوں نے پڑھی۔

حدیث نمبر35

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفٍ عَنْ أَبِي الْمَغْرَاءِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) لِعلي (عَلَيْهِ السَّلام) يَا عَلِيُّ ادْفِنِّي فِي هَذَا الْمَكَانِ وَارْفَعْ قَبْرِي مِنَ الارْضِ أَرْبَعَ أَصَابِعَ وَرُشَّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے علی سے فرمایا ، تم مجھ کو اسی حجرہ میں دفن کرنا اور میری قبر چار انگشتت بلند کرنا اور اس پر پانی چھڑکنا۔

حدیث نمبر 36

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ أَتَى الْعَبَّاسُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اجْتَمَعُوا أَنْ يَدْفِنُوا رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فِي بَقِيعِ الْمُصَلَّى وَأَنْ يَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَخَرَجَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) إِلَى النَّاسِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِمَامٌ حَيّاً وَمَيِّتاً وَقَالَ إِنِّي أُدْفَنُ فِي الْبُقْعَةِ الَّتِي أُقْبَضُ فِيهَا ثُمَّ قَالَ عَلَى الْبَابِ فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ عَشَرَةً عَشَرَةً يُصَلُّونَ عَلَيْهِ ثُمَّ يَخْرُجُون۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے عباس نے امیر المومنین سے کہا لوگ اس خیال سے جمع ہوئے ہیں کہ رسول اللہ کو جنت البقیع میں دفن کریں اور ان میں سے کوئی نماز جنازہ کی امامت کرے۔ یہ سن کر امیر المومنین باہر آئے اور فرمایا، لوگو رسول اللہ جیسے زندگی میں خلق کے امام تھے مرنے کے بعد بھی ہیں۔ انھوں نے وصیت کی ہے کہ مجھے اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں میری روح قبض ہو، پھر آپ درروازہ پر کھڑے ہوئے اور نماز جنازہ پڑھی اور لوگوں سے کہا کہ وہ دس دس آئیں اور نماز جنازہ پڑھ کر باہر نکل جائیں۔

حدیث نمبر 37

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ وَالْمُهَاجِرُونَ وَالانْصَارُ فَوْجاً فَوْجاً قَالَ وَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) سَمِعْتُ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَقُولُ فِي صِحَّتِهِ وَسَلامَتِهِ إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الايَةُ عَلَيَّ فِي الصَّلاةِ عَلَيَّ بَعْدَ قَبْضِ الله لِي إِنَّ الله وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، جب رسولِ خدا کی روح قبض ہوئی تو ملائکہ مہاجرین اور انصار نے جوق در جوق آنحضرت پر نماز پڑھی۔ امیر المومنین نے فرمایا میں نے آنحضرت سے سنا ہے درآنحالیکہ حضور صحیح و سالم تھے کہ یہ آیت قبض روح کے بعد میری نماز کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ان اللہ و ملائکۃ الخ۔

حدیث نمبر 38

بَعْضُ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ كَثِيرٍ الرَّقِّيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله مَا مَعْنَى السَّلامِ عَلَى رَسُولِ الله فَقَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمَّا خَلَقَ نَبِيَّهُ وَوَصِيَّهُ وَابْنَتَهُ وَابْنَيْهِ وَجَمِيعَ الائِمَّةِ وَخَلَقَ شِيعَتَهُمْ أَخَذَ عَلَيْهِمُ الْمِيثَاقَ وَأَنْ يَصْبِرُوا وَيُصَابِرُوا وَيُرَابِطُوا وَأَنْ يَتَّقُوا الله وَوَعَدَهُمْ أَنْ يُسَلِّمَ لَهُمُ الارْضَ الْمُبَارَكَةَ وَالْحَرَمَ الامِنَ وَأَنْ يُنَزِّلَ لَهُمُ الْبَيْتَ الْمَعْمُورَ وَيُظْهِرَ لَهُمُ السَّقْفَ الْمَرْفُوعَ وَيُرِيحَهُمْ مِنْ عَدُوِّهِمْ وَالارْضِ الَّتِي يُبَدِّلُهَا الله مِنَ السَّلامِ وَيُسَلِّمُ مَا فِيهَا لَهُمْ لا شِيَةَ فِيهَا قَالَ لا خُصُومَةَ فِيهَا لِعَدُوِّهِمْ وَأَنْ يَكُونَ لَهُمْ فِيهَا مَا يُحِبُّونَ وَأَخَذَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) عَلَى جَمِيعِ الائِمَّةِ وَشِيعَتِهِمُ الْمِيثَاقَ بِذَلِكَ وَإِنَّمَا السَّلامُ عَلَيْهِ تَذْكِرَةُ نَفْسِ الْمِيثَاقِ وَتَجْدِيدٌ لَهُ عَلَى الله لَعَلَّهُ أَنْ يُعَجِّلَهُ جَلَّ وَعَزَّ وَيُعَجِّلَ السَّلامَ لَكُمْ بِجَمِيعِ مَا فِيهِ۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا، السلام علیٰ رسول اللہ کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب اپنے نبی اور ان کے وصی اور ان کی بیٹی اور دونوں بیٹوں اور تمام آئمہ اور ان کے شیعوں کو پیدا کیا اور ان سے عہد لیا کہ مشرکوں کی اذیت پر صبر کریں اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں اور باہم رابطہ پیدا کریں اور اللہ سے ڈریں اور خدا نے ان سے وعدہ کییا وہ ان کو ایک مبارک سرزمین عطا کرے گا اور امن و امان کے حرم میں جگہ دے گا اور ان کے حصول رحمت و برکت کے لیے بیت المعمور کو نازل کرے گا اور ایک بلند مقام ان کے لیے ظاہر کرے گا اور ضررِ دشمن سے ان کو بچائے رکھے گا اور ایسی زمین ان کو دے گا جسے اللہ نے سلامتی سے بدل دیا ہو گا اور اس میں ایسی سلامتی ہو گی کہ اس میں دشمن سے کوئی نزاع نہ ہو گی اور وہ ان کے لیے خالص ہو گی دشمنوں کا اس میں کوئی دخل نہ ہو گا اور وہ جو چاہیں گے وہ موجود ہو گا اور رسول اللہ نے آئمہ اور ان کے شیعوں سے اس کا عہد لے لیا ہے پس رسول پر سلام تذکرہ ہے اسی میثاق کا اور تازہ کرنا ہے خدا کے سامنے اس عہد کو تاکہ وہ تعجیل کرے اپنے وعدے کے پوررا کرنے میں۔